حقیقی آزادی: ایک خواب یا حقیقت؟

ایم فاروق انجم مسعد

4

آزادی ایک ایسا لفظ ہے جو صدیوں سے انسان کی سوچ، جدوجہد، اور قربانیوں کا مرکز رہا ہے۔ ہر قوم، ہر فرد، ہر مکتبِ فکر کے لوگ اس کے حصول کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ “حقیقی آزادی” کیا ہے؟ کیا یہ صرف بیرونی تسلط سے نجات کا نام ہے؟ یا اس کے مفہوم کہیں زیادہ وسیع، گہرے اور ہمہ گیر ہیں؟ اس کالم میں ہم “حقیقی آزادی” کے مختلف پہلوؤں، اس کی اہمیت، اس کی موجودہ حالت، اور اس کے حصول کے لیے درکار شعور و عمل کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔

ہم آزادی کے ظاہری اور باطنی تصور میں فرق سے بھی قاصر ہیں۔ عام طور پر جب ہم آزادی کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں سب سے پہلا خیال غلامی سے نجات کا آتا ہے۔ غلامی کی کئی اقسام ہوتی ہیں: سیاسی، معاشی، سماجی، ذہنی اور فکری۔ محض سیاسی آزادی کو آزادی کا مکمل تصور سمجھ لینا سادہ لوحی ہے۔ جب تک انسان اپنی فکری اور عملی غلامی سے آزاد نہ ہو، وہ حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہو سکتا۔

پاکستان ایک آزاد ملک ہے۔ ہمیں 14 اگست 1947 کو انگریز سامراج سے نجات ملی۔ لیکن کیا ہم نے اس آزادی کو سنبھالا؟ کیا ہم حقیقی معنوں میں آزاد ہو چکے ہیں؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔

ہمیں بظاہر سیاسی آزادی حاصل ہے۔ ہمارے پاس اپنا آئین ہے، اپنی پارلیمنٹ ہے، اپنے ادارے ہیں۔ لیکن کیا یہ ادارے آزاد ہیں؟ کیا یہ عوام کے حقیقی نمائندے ہیں یا کچھ مخصوص طبقے کے مفادات کی نگرانی کرتے ہیں؟ سیاسی آزادی اُس وقت معنی خیز ہوتی ہے جب ایک عام شہری بلا خوف و خطر اپنے خیالات کا اظہار کر سکے، حکومتی پالیسیوں پر تنقید کر سکے، اور ایک باوقار زندگی گزار سکے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی آزادی کا مطلب صرف “اقتدار کی کرسی تک رسائی” بن چکا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور رہنما ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ عوامی مسائل، عدل و انصاف، تعلیم، صحت، اور روزگار جیسے بنیادی حقوق ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔

معاشی آزادی کے بغیر کوئی قوم حقیقی آزادی کا مزہ نہیں چکھ سکتی۔ آج بھی ہمارا ملک آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ ہر بجٹ، ہر پالیسی انہی اداروں کی منظوری سے مشروط ہوتی ہے۔ جب ہم اپنی معاشی پالیسیاں خود نہیں بنا سکتے، تو ہم کیسے دعویٰ کریں کہ ہم آزاد ہیں؟

ایک طرف ملک میں اشرافیہ کے لیے ٹیکس معافیاں، سبسڈیز، اور مراعات ہیں، دوسری طرف غریب عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کے لیے بھی ترسایا جاتا ہے۔ جب روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج عوام کی پہنچ سے باہر ہوں تو کیسی آزادی؟ معاشی آزادی کے بغیر شخصی آزادی بھی ایک سراب ہے۔

سماجی سطح پر ہم آج بھی فرسودہ روایات، ذات پات، زبان، صوبائیت اور فرقہ واریت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ عورت کو آج بھی برابر کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ اقلیتیں خوف میں زندگی گزارتی ہیں۔ مزدور، کسان، کم آمدنی والے افراد ایک الگ دنیا میں جیتے ہیں جہاں انصاف ایک نایاب شے ہے۔

حقیقی آزادی تب ہی ممکن ہے جب ہر فرد کو برابری کا درجہ دیا جائے۔ معاشرے میں عدل و انصاف ہو، عزتِ نفس کا احترام ہو، اور قانون سب کے لیے یکساں ہو۔

ہمارا تعلیمی نظام بھی غلامی کی ایک شکل ہے۔ ہم آج بھی وہی نصاب پڑھا رہے ہیں جو نوآبادیاتی دور میں بنایا گیا تھا تاکہ ایسے لوگ پیدا ہوں جو صرف احکامات بجا لانے والے ہوں، تخلیقی اور تنقیدی سوچ رکھنے والے نہ ہوں۔ آج کا طالبعلم صرف امتحان پاس کرنے کی فکر میں مبتلا ہے، علم حاصل کرنے کا جذبہ ناپید ہو چکا ہے۔

جب تک ہم اپنے تعلیمی نظام کو آزاد نہیں کرتے، تب تک ہم ذہنی غلامی سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ حقیقی آزادی کا مطلب ہے کہ ہم ایسے افراد تیار کریں جو سوال کر سکیں، سوچ سکیں، نئی راہیں نکال سکیں۔

میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں میڈیا یا تو سنسرشپ کا شکار ہے یا پھر مخصوص ایجنڈوں کا ترجمان بن چکا ہے۔ آزادیِ اظہار رائے کو دبایا جا رہا ہے، صحافیوں پر تشدد، اغواء اور قتل جیسے واقعات عام ہیں۔

ایک ایسا معاشرہ جہاں سچ بولنے کی اجازت نہ ہو، وہاں حقیقی آزادی کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ میڈیا کو مکمل آزادی ملنی چاہیے تاکہ وہ عوام کی آواز بن سکے، اور طاقتور طبقوں کا احتساب کر سکے۔

فکری و نظریاتی غلامی سب سے گہرا زہر ہے۔ آج ہم فکری غلامی کا شکار ہیں۔ ہم دوسروں کے خیالات پر اندھا اعتماد کرتے ہیں، اپنی رائے بنانے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔ ہمارے مذہبی و سیاسی رہنما سوچنے سے زیادہ پیروی کی تلقین کرتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں فرد کی خودی دم توڑ دیتی ہے۔

علامہ اقبال نے خودی کو بیدار کرنے کا درس دیا تھا، لیکن ہم نے خودی کو جوتے کی نوک پر رکھ دیا۔ جب تک ہم آزادانہ سوچنے، سوال کرنے، اور سچ کو قبول کرنے کی ہمت پیدا نہیں کرتے، ہم فکری غلامی سے آزاد نہیں ہو سکتے۔

اسلام کا تصورِ آزادی نہایت بلند اور باوقار ہے۔ اسلام فرد کو روحانی، فکری، معاشرتی اور معاشی ہر طرح کی غلامی سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: “اللہ کے سوا کسی کی غلامی نہ کرو۔”
(سورۃ التوبہ: 31)

حضرت عمرؓ کا قول ہے: “تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا؟”

اسلامی ریاست کا تصور بھی ایک ایسی ریاست کا ہے جہاں عدل و انصاف ہو، مساوات ہو، انسانی وقار ہو، اور ہر فرد کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں۔

حقیقی آزادی کی راہ میں رکاوٹوں میں سے بہت بڑی رکاوٹ بد عنوانی ہے۔ کرپشن نے ہمارے اداروں کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ جب انصاف بکنے لگے، تو آزادی بے معنی ہو جاتی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں قانون کی حکمرانی کا فقدان بھی حقیقی آزادی کے حصول میں ایک رکاوٹ ہے۔ قانون صرف کمزوروں کے لیے ہے۔ طاقتور طبقے قانون سے بالاتر ہیں۔ جب قوم تعلیم سے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.