دنیا کی سفارتی شطرنج میں بعض کھلاڑی بظاہر بڑے ماہر لگتے ہیں، مگر وقت آنے پر ان کی چالیں خود ان کے لیے پھندا بن جاتی ہیں۔ بھارت نے برسوں تک یہ کھیل بڑی مہارت سے کھیلا۔ کبھی واشنگٹن کی گود میں جا بیٹھا، کبھی ماسکو کی مسکراہٹیں سمیٹیں، کبھی بیجنگ کے ساتھ تجارتی دسترخوان سجا لیے، تو کبھی ریاض اور تل ابیب کے ساتھ تعلقات کی گرہیں مضبوط کر لیں۔ مگر یہ دوغلا کھیل زیادہ دیر پردے میں نہ رہ سکا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی مصنوعات پر بھاری محصولات لگا کر اس پالیسی کا پردہ چاک کر دیا۔ بعض شعبوں میں یہ ٹیرف 51 فیصد تک جا پہنچا ہے، جو دہلی کے لیے نہ صرف ایک معاشی دھچکا ہے بلکہ عالمی منڈی میں اس کی پوزیشن کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔
بھارت کی حکمتِ عملی ہمیشہ یہ رہی کہ سب سے تعلقات رکھو، مگر کسی ایک کے ساتھ پوری وابستگی نہ کرو۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف اس نے امریکا سے اسٹریٹجک معاہدے اور دفاعی تعاون بڑھایا، تو دوسری طرف روس سے اسلحے اور توانائی کے سودے کیے۔ ساتھ ہی چین کے ساتھ اربوں ڈالر کی تجارت چلتی رہی اور سعودی عرب و اسرائیل کے ساتھ بھی سیاسی و معاشی روابط گہرے ہوتے گئے۔ لیکن یہ سب کچھ ایک ناپ تول کر اختیار کی گئی “سب کو خوش رکھنے” والی پالیسی کا حصہ تھا، جو اب امریکا کے نشانے پر آ گئی ہے۔
امریکی دباؤ کے بعد دہلی کے پاس چین کی طرف جھکاؤ بڑھانے کا آپشن ضرور ہے، مگر یہ راہ کانٹوں سے بھری ہے۔ لداخ اور دیگر سرحدی تنازعات، تجارتی خسارے، اور باہمی اعتماد کی کمی وہ دیواریں ہیں جنہیں محض مسکراہٹوں اور بیانات سے نہیں گرایا جا سکتا۔ چین بھی جانتا ہے کہ بھارت کا دل اب بھی واشنگٹن میں دھڑکتا ہے، اس لیے وہ اپنی قربت کو محدود اور محتاط رکھے گا۔
یہ تمام حالات پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع ہیں۔ دہلی کی مشکلات ہمارے لیے امکانات کا دروازہ کھول رہی ہیں۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں گرمی پیدا کی جا سکتی ہے، سرمایہ کاری کے منصوبے اور تجارتی شراکت داری کو فروغ دیا جا سکتا ہے، اور علاقائی سپلائی چین میں پاکستان کو ایک مرکزی حیثیت دلائی جا سکتی ہے۔ مگر یہ سب تبھی ممکن ہوگا جب ہم چین کے ساتھ اپنے تزویراتی رشتے کو متوازن رکھیں اور ایک ہی وقت میں دونوں بڑی طاقتوں کے ساتھ اعتماد کا رشتہ مضبوط کریں۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو قربانیاں دی ہیں، وہ دنیا کے کسی اور ملک کے حصے میں نہیں آئیں۔ ہزاروں جانوں کا نذرانہ، اربوں ڈالر کا معاشی نقصان، اور بدامنی کے سائے میں گزرے ہوئے برس — یہ سب ہماری اجتماعی قیمت ہے۔ اب عالمی برادری سے یہ مطالبہ کرنے کا وقت ہے کہ ان قربانیوں کا اعتراف کیا جائے اور اس کا ازالہ ترقیاتی فنڈز، سرمایہ کاری اور تجارتی مراعات کی صورت میں ہو۔
اب گیند ہمارے کورٹ میں ہے۔ پاکستان کے تھنک ٹینک، پالیسی ساز اور سفارت کار اگر اس موقع کو صحیح وقت پر صحیح چال کے ساتھ استعمال کریں تو یہ لمحہ ہمارے لیے تاریخ کا موڑ بن سکتا ہے۔ معاشی سفارت کاری کو تیز کرنا، خطے میں توانائی اور تجارتی منصوبوں کو آگے بڑھانا، امریکا کے ساتھ مفادات پر مبنی شراکت داری قائم کرنا اور اپنی قربانیوں کو دنیا کے سامنے رکھنا — یہی وہ اقدامات ہیں جو ہمیں اس کھیل میں فاتح بنا سکتے ہیں۔ دشمن کی کمزوری کو اپنی سب سے بڑی طاقت میں بدلنا ہی اصل کامیابی ہے، اور آج یہ موقع ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔