بغداد سے غزہ تک

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

4

کہتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو صدیوں تک لوگوں کو رولاتے رہتے ہیں جن کا دکھ ہمیشہ بےچین رکھتا ہے ۔ تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے اور شاید یہ اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ لوگ وقت کے ساتھ ساتھ پرانے زخموں کو بھولنے لگتے ہیں تو نئے زخم پھر سے ان کی یاد تازہ کردیتے ہیں ۔ہر واقعہ کہ مماثلت تاریخ میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتی ہے ۔میں جب بھی سقوط بغداد  اور تاتاریوں کی سفاکی کے بارۓ میں پڑھتا تھا تو مجھے کبھی کبھی یقین نہیں آتا تھا کہ دنیا میں ایسی سفاکی ہو رہی ہو اور پوری دنیا خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہی ہوگی ؟انسانی سروں کے اونچے مینار ، مرد ،خواتین اور بچوں کی لاشوں سے اٹی گلیاں اور محلے ،دریا دجلہ میں پانی کی جگہ بہتا ہوا انسانی خون ،بےرحم تباہی اور قتل عام دیکھا تو نہیں جاسکتا تھا مگر پڑھ کر ہی اسکے تصور سے دل لرز اٹھتا تھا ۔بغداد جیسے علم وفن ،حکمت اور روحانیت کے مرکز کی تباہی و بربادی  پر دل خون کے آنسو روتا تھا ۔کہتے ہیں کہ دریاۓ دجلہ کتابوں اور لائبریروں کی سیاہی سے کالا اور پھر انسانی خون کی ارزانی سے سرخ ہو گیا تھا ۔ہلاکو خان نے علم و حکمت کے صدیوں پرانے چراغ کو مسلمانوں کے خون سے بجھا دیا ،انسان تلواروں ،نیزوں اور تیروں سے ذبح کردئے ۔دریاۓ دجلہ میں پانی کی بجاۓ لہو بہنے لگا ۔سقوط بغداد سے غزہ تک گو صدیوں کا فاصلہ ہے مگر منظر نامہ ایک جیسا ہے صرف کردار بدل گئے ہیں ۔لیکن درد تو وہی ہے گو تہذیبیں بدل گئی ہیں مگر ظلم وبربریت کا انداز ذرا بھی نہیں بدلا  اور نہ ہی پوری دنیا  کی خاموشی اور بےحسی میں کوئی فرق آیا ہے ۔تاتاری  بےدین اور ننگ انسانیت سمجھے جاتے تھے لیکن آج کا  جدیدظالم تو انسانیت کا علمبرادر بھی ہے۔وہ تیروں کی بارش کرتے تھے یہ آگ برسا رہے ہیں ڈرون سے گولیوں اور میزائیلوں کی بارش سے  تباہی پھیلا رہے ہیں ۔تاتاری سروں کے مینار بناتےتھے یہ دھماکوں سے انسانی جانوں کو فضا میں بکھیر رہے ہیں ۔ ہلاکو خان نےبغداد کی لائبریریوں ،بیت الحکمت جسے مقامات جلا ڈالے جہاں فلسفہ سائنس ،فقہ اور ادب پر محققین کی نظریں جھکی رہتی تھیں ۔لیکن وہی نظر آج غزہ کی درسگاہوں پر ہے اسکول ،اسپتال ،جامعات سب نشانہ بن چکے کیونکہ ظالم جانتا ہے کہ علم کا چراغ بجھ گیا تو نسلیں اندھیروں میں بھٹک جائیں گی۔سقوط بغداد کے وقت خلافت کمزور تھی ،ریاستیں منتشر اور حکمران عیش وعشرت میں غرق تھے ۔وہی حال آج بھی ہے غزہ چیخ رہا ہے بھلا   ان کے لیے کون بول رہا ہے ؟بچے کٹی آستینوں اور ماوں کی پھٹی جھولیوں میں پناہیں تلاش کر رہے ہیں ۔ملبے میں دبے ہزاروں بے گور کفن   لاشے الگ فریاد کناں ہیں۔بھوک  اور پیاس کو بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔خوراک کے لیے تڑپتے  مرد ،بوڑھے ،بچے اور خواتین  گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں ۔شہادتیں معمول بن چکی ہیں ۔بھوک اور خوراک کی کمی کی باعث سسکتے اور  ہڈیوں کے ڈھانچے بنے غزہ کے فلسطینی ہتھیار ڈالنے اور اپنی دھرتی چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں ۔انٹرنیشنل میڈیا بھی شاید غزہ کی خبریں دے دے کر تھک چکا ہے ۔غزہ کے بارے میں رفتہ رفتہ  خاموشی بڑھتی جارہی ہے ۔گذشتہ روز ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھی تو دل لرزا کر رہ گیا بھوکے فلسطینوں کی خوراک کے لیےجان کی پرواہ نہ کئے بغیر یلغار اور جانوں کا گنوانا  معمول بن چکا ہے ۔ صحافیوں کی جانوں کو درپیش خطرات کے باوجود  ایک ویڈیو بنانے والے انٹرنیشنل فوٹو گرافر نے آنکھ کے آنسو پونچھ کر کہا کہ مجھے ایسا لگا جیسے زمیں تھرتھرا اٹھی ہو ،جیسے آسمان رو رہا ہو ۔غزہ کے لوگ رزق کی تلاش میں زندگی ہار رہے تھے ۔وہ کہتا ہے کہ میں نے جنگیں دیکھی ہیں ،زلزلے دیکھے ہیں ۔۔مگر ایسی بھوک نہیں  ؟ یہ قیامت کی ایک جھلک ہے ۔غزہ کے لاکھوں بچے عالم بے بسی   کی اس حالت میں پہنچ گئے ہیں کہ اب تو ایڑیاں رگڑنے کی بھی قوت نہیں رہی ۔

بغداد میں خنجر اور تلوار چلی اور غزہ میں بم اور بارود برسا مگر حیرت کی بات ہے کہ مظلوموں کی مزاحمت تب بھی زندہ تھی  اور آج بھی زندہ ہے ۔بغداد کے بعد ابن تیمیہ ابھر ،تیمور بن خلدون اور نئی تحریکوں نے جن لیا اور آج بھی غزہ کے بچے شہادت کے گیت گاتے ہیں ماں کی گود میں کفن سجا ہوا ہے ۔اور چہروں پر وحشت کی بجاۓ عزم دکھائی دے رہا ہے ۔وہ اپنی دھرتی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں ایک جانب مظلوم اور بےبس انسانوں کی چیخ وپکار آسما ن چیر رہی ہے تو دوسری جانب دو ارب بے بس مسلمانوں کی دعاوں نے عرش ہلا کر رکھ دیا ہے ۔تاتاری تو جاہل اور وحشی تھے نہ انسانیت کو جانتے تھے نہ ہی انسانی حقوق کو سمجھتے تھے مگر یہ تو سب جانتے ہیں انسانیت کے علمبردار بنتے ہیں ۔ ۔ایک جانب یہ خونریزی جاری ہے تو دوسری جانب پوری دنیا سفارتی اجلاسوں اور مذمتی بیانات میں مصروف دکھائی دیتی ہے ۔ عالمی عدلت اسرائیل کو دہشت گرد قرار دے چکی ہے  ۔لوگ ملک ملک احتجاج اور ریلیاں نکال رہے ہیں لیکن بھلا  احتجاج یا دھرنوں سے کب ایسے ظلم کا راستہ رک سکا ہے ۔پوری دنیا آج پھر محو تماشا ہے اور امت مسلمہ بغداد کی طرح غزہ پر بھی دعاوں اور مذمت کا سہارا لیے ہوۓ ہے ۔سقوط بغداد کے بعد جاگنے میں کئی صدیاں لگیں لیکن کیا غزہ کی یہ چیخیں بھی ہماری نیند کا پردہ چاک کر سکیں گیں۔جی ہاں ! غزہ آخری سانسیں لے رہا ہے ،زندگی ڈوب رہی ہے  اور انسانیت مر رہی ہے لیکن  نہتے  اور بھوکے پیاسے فسطینوں کا قتل عام جاری ہے ۔دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے  ۔عالمی ادارے صرف کاغذی اور زبانی کاروائی کرکے وقت گزار رہےہیں اور شاید منتظر بھی ہیں کہ کب غزہ بھی بغداد بن جاۓ اور کب تاریخ اپنے آپ کو دہراۓ ؟۔مصر کی مسلمان عوام بوتلوں میں خوراک بند کرکے سمند ر میں بہا رہی ہے کہ شاید یہ بہتے ہوۓ پانی کے ساتھ بھوکے پیاسے فلسطینیوں تک پہنچ سکیں ۔

آج سے سالوں بعد مورخ جب بھی سقوط بغداد کی بات کرۓ گا توغزہ کی بربادی کا ذکر بھی کرۓ گا اور لکھے گا کہ  تاتاریوں اور اسرئیلیوں میں کوئی فرق نہیں تھا بلکہ غزہ میں بغداد سے زیادہ ظلم ہوا ۔غزہ کے کھنڈر اور ان کے تلے دبے بےشمار فلسطینی شہداء کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جاۓ گا کہ انہوں نے شہادت تو قبول کرلی مگر اپنے وطن کی مٹی نہیں چھوڑی ۔آج غزہ لہ حالت دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ انسان تو بھوکا پیاسا پھر بھی زندہ ہے لیکن انسانیت کب کی مر چکی ہے ۔آج فلسطینوں کی قبروں صرف ہڈیان دفن کی جارہی ہیں جسم کا گوشت زندہ ہونے کی حالت میں ہی ختم ہو چکا ہے ۔غذائی قلت ،بنیادی ادویات اور علاج کی کمی کے نتیجے اور زندگی کی بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی  کی باعث بھوک اور بیماری سے یہ ہڈیوں کے ڈھانچے ہر روز  اپنی سانسسیں گنوا رہے ہیں ۔ایسا تو تاتاریوں نے  بغداد میں بھی نہیں کیا تھا ۔تاتاری بہت ظالم تھے بےدریغ  قتل وغارت ،علم وتہذیب کی تباہی ،مذہبی مقامات کی بے حرمتی ،نفسیاتی و ذہنی غلامی کے ہتھکنڈے اور کفر کی تماتر چالاکیوں کے باوجود  اس طرح کی سفاکیت ،بھوک  پیاس کی اذیت کا بطور ہتھیار استعمال دکھائی نہیں دیتا جب سرحدیں تک بند کرکے خوراک روک دی گئی ہو ۔کہتے ہیں کہ موت کی خوفناک،المناک  اور اذیت ناک صورت بھوک سے واقع ہوتی ہے ۔اس وقت اقوام متحدہ کے مطابق دس لاکھ بچے اس بھیانک موت کےخطرے سے دوچار ہیں ۔اقوام متحدہ کے مطابق چھ ہزار ٹرک غزہ کے بارڈر پر خوراک لیے کھڑے ہیں لیکن اسرائیل اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہا ۔آج کا یہ سفاک تاتاری تلوارکے ایک دفعہ کے وار سے ہی زندگی کا خاتمہ نہیں کر رہا بلکہ بھوک ،پیاس ،بیماری کی طویل اذیت کے بعد گولیاں مار رہا ہے اور شاید طلم کی تاریخ میں ان صیہونی دہشت گردوں نے تاتاریوں کو بہت پیچھے چھوڑدیا ہے ۔جی ہاں !! غزہ ڈوب رہا ہے اور دنیا اسے ڈوبتے دیکھ رہی ہے اور یہ تاریخ لکھی جا رہی ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.