آخر کب تک ؟
احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
تیس مئی کے ایک اور سیاہ دن کو حیدرآباد کے علاقے پریٹ آباد میں گیس سسلنڈر کی ایک دکان میں دھماکہ اور اس میں ایک مرتبہ پھر تقریبا” ستائیس قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا دلخراش سانحہ رونما ہوا ہے ۔
یہ اب تک ایسے حادثے میں مرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد بتائی جاتی ہے ۔جس سے باسٹھ سے زائد افراد شدید زخمی بھی ہوۓ ہیں ۔یہ اس نوعیت کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیا جارہا ہے ۔
اخباری رپورٹ کے مطابق یہ دھماکہ ایک دکان میں ہوا جس کے بعد آگ بھڑک اٹھی اور آتشزدگی کے باعث دکان میں موجود کئی سسلنڈر دھماکوں سے پھٹ گئے ۔اس دھماکے اور آتشزدگی سے آس پاس کی عمارات کو بھی شدید نقصان پہنچا اور آگ کی باعث متعدد لوگ بھی جھلس گئے ۔
ان میں بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے ۔اس سانحے نے ناجانے کتنے بچے یتیم اور کتنی ہی بہنوں اور ماوں کے خواب اجاڑ دئیے ہیں ۔اس سانحے میں انسانی جانوں کے جھلس کر ہلاک ہونے پر پوری قوم شدید صدمے سے دوچار ہے ۔ ہر آنکھ اس بےچارگی کی موت پر اشکبار ہے ۔
پریٹ آباد میں آٹھ بچوں کے اکھٹے جنازوں نے کہرام مچا دیا اور پورا علاقہ سوگ میں ڈوب گیا ہے ۔۔یہ دھماکے پاکستان کے طول وعرض میں کوئی نئی بات ہرگز نہیں ہیں ان دھماکوں کی ایک بڑی طویل تاریخ دیکھی جاسکتی ہے ۔اس سے قبل بھی اس نوعیت کے بےشمار واقعات اور حادثات مختلف شہروں میں رونما ہو چکے ہیں ۔
شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو جو ایسے حادثات سے محفوظ رہا ہو ۔بلکہ اگر یہ کہا جاۓ کہ اب تو یہ دھماکے عام ہوتے جارہے ہیں تو غلط نہ ہو گا ۔آۓ دن ملک کے کسی نہ کسی کونے سے ایسے اندوہناک اور دلخراش واقعات کی بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے ۔ہمارا میڈیا اور سوشل میڈیا دوچار دن کے لیے اس پر بحث کرتا ہے ۔
پرنٹ میڈیا بھی شور مچاتا ہے ۔مگریہ سب وقتی باتیں ہوتی ہیں ۔پھر ناجانے کیوں اگلے سانحے تک ایک پراسرار سی خاموشی چھا جاتی ہے ؟۔عجیب بات یہ ہے کہ ان دھماکوں میں اضافے کو عوام اس کا ذمہ دار حکام اور اس بارے میں حکومتی ناقص منصوبہ بندی اور پالیسیوں کو ٹھہراتے ہیں ۔
جبکہ حکام اسے شہریوں کی لاپرواہی اور غفلت گردانتے ہیں ۔کبھی گھروں میں ،کبھی گاڑیوں اور رکشوں میں ،اور کبھی دکانوں میں یہ واقعات روزمرہ زندگی کا معمول بنتے جارہے ہیں جو بےشمار انسانی المیوں کو جنم دینے کا باعث بھی بن رہے ہیں ۔
ہر شہر میں سرعام ان گیس سسلنڈروں کی دکانیں دن رات موت کی دعوت دیتی نظر آتی ہیں ۔جب بھی کوئی تازہ واقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے ان پر چھاپے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور انہیں سیل بھی کردیا جاتا ہے ۔
یہ لوگ اپنا کاروبار دکان سے گھر منتقل کردیتے ہیں جو اس سے بھی زیادہ خطرناک بن جاتا ہے ۔
پھر ناجانے کون سی طاقتیں انہیں پھر سے کام کرنے کی اجازت دے دیتی ہیں ۔یہ سلسلہ بڑے عرصے سے جاری ہے عوام کی ضروریات بھی ان کے بغیر پوری نہیں ہوتیں ۔
سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ کی موجودہ صورتحال میں کسی بھی متبادل ایندھن کا حصول کسی طرح بھی ممکن ہوتا نظر نہیں آتا ۔ہر دھماکہ شہر کے مکینوں کو دہلا کر رکھ دیتا ہے ۔میرے ایک دوست جو ایل پی جی کا کاروبار کرتے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ پاکستان میں ہر روز ایسے دلخراش دھما کوں کی آخر وجہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ پھٹنے کی بنیادی وجہ تو غیر معیار ی گیس سسلنڈروں کی موجودگی ہوتی ہے ۔جن کمپنیوں کو یہ سسلنڈربنانے کی اجازت دی جاتی ہے وہ مستند عالمی معیار اور ایس او پی کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔
دوسرے بلا لائسنس اور اسمگلنگ شدہ سسلنڈر بھی مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہوتے ہیں ۔جو غیر معیاری اور سستے ہونے کی وجہ سے زیادہ خریدے جاتے ہیں۔اس وقت پنجاب کا شہر گوجرنوالہ اور ملتان یہ گیس سسلنڈر بنانے کا مرکز سمجھا جاتا ہے ۔
یاد رہے یہی ایل پی جی سسلنڈر پاکستان میں گھروں ،رکشوں اور ہو ٹلوں میں بڑی تعداد میں زیر استعمال ہیں ۔ان کے مطابق معیاری اور مستند سسلنڈر دھوپ ،ٹھوکر اور بعض اوقات تو آگ سے بھی نہیں پھٹتے جبکہ غیر معیاری ،غیر مستند اور سمگل شدہ سسلنڈر ذرا سی بے احتیاطی سے پھٹ جاتے ہیں ۔عام طور پر اگر کوئی سگریٹ بگیر بھجاے سسلنڈر کے نزدیک پھینک دے تو اس سے یہ حادثہ رونما ہوسکتا ہے ۔
اس بارے میں آگاہی اور متعدد حادثات کے باوجود کوئی مثبت حکومتی اقدام دیکھنے میں نہیں آرہے ہیں یا پھر سیاسی عدم استحکام اور باہمی رسہ کشی کی وجہ سے یہ حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے ؟
حیدر آباد کے اس دھماکے کے بعد پورے پاکستان میں ان ایل پی جی گیس سسلنڈروں گیس بھرنے والے ایجنٹوں اور غیر قانونی فلنگ اسٹیشنوں کے کے خلاف ایک بڑا آپریشن اور ملک گیر کریک ڈوان شروع کردیا گیا ہے اور اس طرح کی سب دکانیں سیل کردی گئی ہیں ۔کاش یہ سب بہت پہلے ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ؟
میرے اس دوست کے مطابق اگر انتظامیہ کے خوف سے یہ کاروبار خفیہ طور پر گھروں میں منتقل ہوگیا تو یہ انسانی جانوں کے لیے مزید خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ہم آخر کسی بڑے سانحے اور دھماکے کے بعد ہی کیوں یہ سب کچھ کرتے ہیں ؟یہ سارے ادارے پہلے کہاں ہوتے ہیں ؟ میڈیا خاموش کیوں رہتا ہے ؟ ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والی گیس دنیا بھر میں سڑکوں پر گاڑیوں کو رواں دواں رکھنے اور گھروں اور ہوٹلوں میں چولہے روشن رکھنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے ۔تاہم شاذ ونادر ہی کوئی حادثہ یا واقعہ سننے میں آیا ہے ۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے ایک دم نہیں ہوتے
سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں آخر کب تک یہ سب ہوتا رہے گا ؟کب تک معصوم لوگ ان دھماکوں کا شکار ہوتے رہیں گے ؟ یاد رہے کہ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہمیں اپنی حفاظت خود بھی کرنی ہے ۔
ہمیں صرف ریاست کی جانب نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ پوری قوم کو انفرادی اور اجتماعی طور پر ان حادثات کی انسداد کے لیے اپنا اپنا فرض ادا کرنا چاہیے تاکہ ہم ملک اور خود کو محفوظ بنا سکیں ۔
اس سلسلے میں ہمیں خود غیر معیار،ناقص اور گیس لیک کرنے والے سسلنڈروں کا استعمال ترک کرنا ہوگااور حکومتی سطح پر بھی ان پر مکمل پابندی لگانی ہوگی ان کے معیار کی جانچ پڑتال کا خصوصی نظام ترتیب دینا ہوگا ۔
گیس سسلنڈر دھوپ میں کبھی نہ رکھیں ۔گیس ریگولیٹر اور لیکج کو چیک کرتے رہیں ہو سکے تو گیس لیکج ڈٹیکٹر ضرورنصب کریں ۔
ان کے نزدیک سگریٹ نوشی پر پابندی کے ساتھ ساتھ سگریٹ نوشی کے ممکنہ مہلک نتائج سے عوام کی آگہی کے لیے ایک موثر میڈیا مہم چلانے کی بھی اشد ضرورت ہے،گیس صرف مستند اور لائسنس ہولڈر سے لیں ۔
کھانا پکانے کی جگہ میں مناسب وینٹیلیشن اور ہوا کی فراہمی یقینی بنائیں ۔ ایل پی جی کے دکانداروں اور ایجنٹوں کو حفاظتی تدابیر کا ادراک مہیا کرنا سب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔
گیس ذخیرہ کرنے والے کاروباری حضرات اور گیس ری فلنگ کرنے والوں کو لائسنس کے اجراء سے پہلے ہی تمام تر احتیاطی ضوابط اور قوانین کا پابند بنایا جاے ٔ ۔ان کی دکانوں کو کسی کھلی جگہ پر مصرف ترین بازاروں سے دور منتقل کیا جاے ٔ تاکہ خدا نخواستہ کسی حادثے کی صورت میں جانی ومالی نقصان کم سے کم ہو ۔
رکشوں ،گاڑیوں میں نصب گیس سسلنڈر کی کوالٹی اور معیار چیک کرنے کے بعد اسے سڑک پر آنے کی اجازت دی جاے ٔ ۔اور انہیں احساس دلایا جاے ٔ کہ ان کی تھوڑی غفلت اور لاپرواہی کتنی ہی قیمتی جانوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ستائیس سے زائد قیمتی جانوں کا نقصان کےبعد حکومت کا یہ ملک گیر کریک ڈاون اس بات کی علامت ہے کہ بہت ہو چکا ہے بس اب اور نہیں ! اللہ ہمارے ملک اور عوام کو محفوظ رکھے ۔