سیلابی ریلے، عفلت کا انجام یا فدرت کا انتقام

تحریر: محمد ندیم بھٹی

1

پاکستان ایک خوبصورت مگر قدرتی آفات سے نبردآزما رہنے والا ملک ھے۔ یہاں پہاڑوں سے بہنے والے دریاؤں، مون سون کی بارشوں اور برفباری کے بعد پگھلنے والے گلیشیئرز کی بدولت وقتاً فوقتاً سیلابی ریلوں کا سامنا کرنا پڑتا ھے۔ ان سیلابی ریلوں نے جہاں فصلوں، گھروں اور مال مویشیوں کو نگل لیا ھے، وہیں ہزاروں انسانی جانوں کو بھی بےرحمی سے چھین لیا ھے۔ پاکستان کے اکثر دیہی علاقے، خاص طور پر خیبرپختونخوا، جنوبی پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے کچھ حصے ان ریلوں سے شدید متاثر ہوتے ھیں۔
سیلابی ریلا صرف پانی کا ایک بہاؤ نہیں ھوتا، بلکہ یہ پانی، مٹی، پتھروں، درختوں، ملبے، جانوروں اور حتیٰ کہ انسانی جسموں کا وہ خطرناک امتزاج ھوتا ھے جو دیکھتے ھی دیکھتے پورے گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ھے۔ یہ ایک قدرتی قہر ھے جو انسانی غفلت، ناقص منصوبہ بندی، ماحولیاتی تبدیلی، جنگلات کی کٹائی اور نکاسی آب کے ناقص نظام کی وجہ سے روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ھے۔
یہ ھے پاکستان کی تلخ حقیقت کہ ہر سال مون سون کی آمد کے ساتھ ہی خوف کی لہر پورے ملک میں دوڑ جاتی ھے۔ محکمہ موسمیات کی پیش گوئیاں اگرچہ بروقت ھیں، لیکن ان پر عملدرآمد کے لیے جو مربوط اور فوری اقدامات ھونے چاہئیں، وہ اکثر کاغذوں تک محدود رہتے ھیں۔ یہ ھے ہمارا اجتماعی المیہ کہ ہم نے قدرت کی ان نشانیوں سے سبق حاصل نہیں کیا۔ 2010، 2022 اور پھر 2024 کے سیلابی ریلے ہمارے لیے وارننگ تھے، لیکن ہم نے انہیں عارضی پریشانی سمجھ کر پسِ پشت ڈال دیا۔
اسی تسلسل میں ایک المناک واقعہ راولپنڈی کے علاقے بحریہ ٹاؤن فیز 7 کے قریب پیش آیا، جہاں ایک اچانک آنے والے سیلابی ریلے نے ایک سابق کرنل اور اس کی نوجوان بیٹی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ان کی گاڑی ریلا بہا لے گیا، اور بعد ازاں دونوں کی لاشیں کئی کلومیٹر دور سے برآمد ہوئیں۔ یہ واقعہ نہ صرف ان کے خاندان کے لیے صدمہ تھا بلکہ پورے ملک کے لیے ایک وارننگ ھے کہ قدرت کسی کو نہیں بخشتی۔ یہ ھے اس غفلت کا نتیجہ جو ہم نے نالوں کے اطراف غیر قانونی تعمیرات کی صورت میں کی۔
سیلابی ریلے کے دوران سب سے پہلا نقصان انسانی زندگی کو پہنچتا ھے۔ چھوٹے بچے، بزرگ، خواتین اور بیمار افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ھیں۔ پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہوتا ھے کہ کوئی جتنا بھی طاقتور ھو، اس کی گرفت میں آکر بہہ جاتا ھے۔ گھر منٹوں میں زمین بوس ھو جاتے ھیں۔ دریا کے کنارے آباد بستیوں کو خالی کرانے کا وقت بھی نہیں ملتا۔ یہ ھے انسانی کمزوری کا بدترین منظرنامہ۔
سیلابی ریلے کا دوسرا بڑا نقصان زراعت کو ھوتا ھے۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں، جو کسانوں کی سال بھر کی محنت اور واحد ذریعہ معاش ھوتی ھیں، پانی میں ڈوب جاتی ھیں۔ زمین بنجر ھو جاتی ھے، بیج اور کھاد ضائع ھو جاتے ھیں۔ یہ ھے غربت میں مزید اضافے کا سبب۔ کسان قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ھیں، اور دیہی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ جاتی ھے۔
مال مویشی بھی اس ریلے کی زد میں آ کر ھلاک ہو جاتے ھیں۔ جن گھروں میں بکری، گائے یا بھینس ہی کل سرمایہ ھوتی ھے، ان کے لیے جانور کا ضیاع کل زندگی کا ضیاع ھوتا ھے۔ یہ ھے دیہی آبادی کی وہ تکلیف جسے شہروں میں بیٹھ کر محسوس نہیں کیا جا سکتا۔
سیلابی ریلے کا ایک اور اثر یہ ھے کہ لوگ بے گھر ہو جاتے ھیں۔ ان کے سر سے چھت چھن جاتی ھے۔ پناہ گاہیں اور کیمپ تو قائم کیے جاتے ھیں، لیکن وہ عارضی ھوتے ھیں۔ بیماریوں، بدبو، گندگی، بھوک اور گرمی کی شدت ان بے گھر لوگوں کے لیے الگ عذاب بن جاتی ھے۔ یہ ھے ریاستی عدم توجہی کی ایک اور شکل۔
ایسے حالات میں حکومت، مقامی انتظامیہ، افواج پاکستان، ریسکیو 1122 اور فلاحی تنظیمیں بروقت کارروائی کرتی ھیں، لیکن جب تک سیلابی ریلا نہیں آتا، اس کے تدارک کی کوئی مؤثر حکمت عملی سامنے نہیں آتی۔ یہ ھے ہمارے منصوبہ بندی کے نظام کی کمزوری۔
موسمیاتی تبدیلی بھی ان سیلابی ریلوں کی ایک بڑی وجہ ھے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ھیں۔ بارشوں کے انداز بدل چکے ھیں۔ اچانک شدید بارش اور طوفانی ھوائیں ان ریلوں کی شدت کو بڑھا رھی ھیں۔ یہ ھے اس عالمی مسئلے کا وہ رخ جس پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کا اثر کم اور نقصان زیادہ ھوتا ھے۔
ان سب کے باوجود، اگر ہم سنجیدگی سے اقدامات کریں، تو ان سیلابی ریلوں سے ہونے والے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ھے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنی نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔ نالوں کی صفائی، بندوں کی تعمیر و مرمت، اور دریا کے کناروں پر مضبوط حفاظتی دیواریں تعمیر کرنا ھوں گی۔ یہ ھے بنیادی انفراسٹرکچر جسے بہتر بنانا لازم ھے۔
اس ضمن میں ایک اور اہم تجویز یہ ھے کہ ہمیں سیلابی پانی کو ضائع کرنے کی بجائے محفوظ بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ چھوٹے ڈیمز اور پانی کے ذخیرے بنانے سے نہ صرف پانی محفوظ کیا جا سکتا ھے، بلکہ یہی پانی زرعی، صنعتی اور گھریلو ضروریات میں بھی کام آ سکتا ھے۔ یہ چھوٹے ڈیمز سیلابی ریلے کے زور کو کم کرتے ھیں اور پانی کو قابو میں رکھتے ھیں۔ یہ ھے وہ دوراندیشی جو آج کے پاکستان کو درکار ھے۔
دوسرا اہم قدم جنگلات کے تحفظ اور شجرکاری کو فروغ دینا ھے۔ درخت نہ صرف زمین کو مضبوط رکھتے ھیں، بلکہ وہ پانی کے بہاؤ کو روکنے میں مددگار ھوتے ھیں۔ یہ ھے ماحولیاتی توازن کا بنیادی اصول، جسے ہم نے فراموش کر دیا ھے۔
تیسرا قدم یہ ھے کہ حکومت کو پیشگی وارننگ سسٹم کو فعال اور مؤثر بنانا ہوگا۔ مقامی آبادی کو بروقت اطلاع، محفوظ مقامات کی نشاندہی، اور انخلاء کا منصوبہ پہلے سے موجود ھونا چاہیے۔ یہ ھے حفاظتی اقدامات کی اصل روح۔
میڈیا کا کردار بھی اس مسئلے میں انتہائی اہم ھے۔ اگر میڈیا عوام میں شعور بیدار کرے، اور سیلابی ریلے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.