اقتدار کی آ نکھ مچولی

جمع تفریق۔۔۔ناصر نقوی

2

اب یہ راز کسی سے پوشیدہ نہیں کہ عوامی فلاحی نظام جمہوریت تمام تر خوبیوں کی باوجود طاقتور بیوروکریسی اور عسکری سرپرستی کے بغیر نہیں چل سکتا ،دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعویدار ریاست بھارت میں بھی یہ سہولت موجود ہے بلکہ پس پردہ ہوتے ہوئے بھی اتنی مضبوط ہے کہ وہاں آ ج تک مارشل لاء نہیں لگا، تمام معاملات افہام و تفہیم سے طےپا جاتے ہیں بنگلہ دیش کی ایک جمہوری حکومت اپنی شخصی۔ آ مریت کے طویل اقتدار کے بعد نہ صرف گرائی جا چکی ہے بلکہ جمہوری اور سیاسی رہنماؤں کو ڈسنے والی خونخوار ڈائن حسینہ واجد کے مد مقابل جب عوام سڑکوں پر آ ئی تو اسے سب کچھ چھوڑ کر بھاگنا پڑ گیا کیونکہ طاقتوروں نے بھی عوامی سونامی کا ساتھ دیا، امریکی صدارتی نظام کا بھی بڑا چرچا ہے عوامی رائے عامہ، الیکشن اور حق راہ دہی اپنی جگہ لیکن کیا کوئی ،،پینٹاگون،، کے کردار سے انکار کر سکتا ہے؟ فرق یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں عوامی رجحان دیکھ کر سہولت کاری کی جاتی ہے اور ترقی پذیر ممالک میں سیاسی غلطیوں اور مفادات کی لڑائی میں اقتدار کے خواہش مند ،،ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ،، رابطے کر کے اپنی اہمیت اور منصوبہ بندی کی پیشکش کرتے ہیں پھر طاقتور اپنی مرضی و منشا کے مطابق سہولت کار بن جاتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ بات آ پ کو ہضم نہیں ہو رہی ہو لیکن بات خالص ہے اور اس میں چھوٹی موٹی ملاوٹ کا شک کیا جا سکتا ہے ،میں نے سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو سے دوسرے دور اقتدار میں پوچھا تھا کہ،، آ پ اسٹیبلشمنٹ یعنی طاقتوروں کے خلاف جدوجہد کرنے والی ہیں لیکن آ پ نے امریکہ بہادر کی مدد سے تعلقات بہتر کر کے اقتدار حاصل کر لیا؟
بے نظیر بھٹو کا جواب تھا کہ ،،جب اقتدار کے راستے کی سیڑھیاں ہی طاقتوروں کے صحن سے گزرتی ہیں تو میں یہ موقع نواز شریف کو کیوں دوں؟ میری گاڑی پر جھنڈا برا لگتا ہے؟،،اس سوال و جواب سے قطع نظر بی بی شہید کی جمہوریت کی بقا اور جمہوری اقتدار کے لیے جدوجہد کسی سے چھپی نہیں ،انہوں نے ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد شدید مشکلات کا سامنا کیا قید بند کے ساتھ ساتھ جلا وطنی بھی برداشت کی لیکن یہ ان کی جدوجہد ہی تھی جس کی کامیابی پر وہ آ مر مطلق اور باپ کے قاتل جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں واپس آ گئیں تو پھر دنیا نے زندہ دلان لاہور کا مثالی اور منفرد استقبال بھی دیکھا، مجھے جب محترمہ شہید کی وطن واپسی کی خبر جنرل ضیاء الحق کے کارخاص ضیاء الاسلام انصاری کی معرفت ملی تو حیران تھا بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کچھ عرصے بعد یہ راز کھلا کہ امریکہ بہادر اس حوالے سے بھی انتہائی اہم ہیں، انہوں نے صدر ضیاء الحق کو یقین دہانی کرائی تھی کہ بے نظیر کی واپسی ہونے دیں وہ آ پ کے لیے ہرگز خطرہ نہیں بنے گی لیکن بقول شخصے سی۔ آ ئی۔ اے نے اپنی منصوبہ بندی کر لی تھی کہ ضیاء الحق جہاد افغانستان کی کامیابی کے بعد ،،نو مور،، لہذا اسے بے نظیر بھٹو کے یادگار استقبال نے تقویت دے دی اور پھر قائم مقام صدر غلام اسحاق خان قوم سے خطاب میں یہ کہتے دکھائی دی ہے کہ،، ہمارے محبوب صدر کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا ،،
مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ صدر ضیاء الحق کو بے نظیر بھٹو کی آ مد سے اپنے اقتدار کے لیے خطرہ لاحق تھا بلکہ انہیں اپنی زندگی کی بے وفائی کا بھی ڈر تھا کیونکہ 17۔ اگست1988 کو فضائی حادثہ ہوا اور وہ 27۔ دسمبر 1987 کو کوئین میری کالج لاہور کی ایک تقریب میں یہ بات کہہ گئے تھے کہ ضیاء الاسلام انصاری کی اس خوبصورت تقریب نے میرا دل جیت لیا ہے نونہالان وطن کی یہ تقریب یادگار ہے اگر میں زندہ رہا ہوں تو آ ئندہ سال بھی اس تقریب میں ضرور آ ؤں گا، صدر کے منصب پر نہ ہوا تو ضیاءالالسلام انصاری مجھے شاید نہ بلائیں لیکن میں آ ؤں گا خواہ مجھے یہاں آ کر کرسیاں ہی کیوں نہ لگانی پڑیں، ان دنوں دہشت گردی کا جن بوتل سے باہر آ چکا تھا اس لیے خصوصی سکیورٹی انتظامات کے لیے مختلف مقامات کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کوئین میری کالج لاہور کا انتخاب عمل میں لایا گیا تھا پھر اگلا سال 27۔ دسمبر 1988صدر ضیاء الحق کو نصیب نہیں ہوا، اس تقریب کی خصوصیت یہ تھی کہ ضیاء الااسلام انصاری کچھ عرصہ پہلے ایک غیر ملکی دورے پر صدر ضیاء الحق کے ہمراہ گئے تھے وہاں مختلف تقریبات میں بچوں نے اپنے صدر کو ،،انکل،، کہہ کر مخاطب ہی نہیں کیا تھا بلکہ ،،صدر انکل،، کے استقبالی نعرے بھی لگائے تھے لہذا اس تقریب میں شرکا بچوں کو ،،چاچا ضیا،، نعرہ لگانے کا سبق اساتذہ کے ذریعے رٹایا گیا تھا
اقتدار کی تمنا میں جدوجہد عوامی فلاحی نعروں میں ہر جگہ کی جاتی ہے پھر جدوجہد میں پکڑ دھکڑ، ظلم و تشدد اور قید و بند بھی آ زمائشی مراحل ہیں، بے نظیر بھٹواور نصرت بھٹو نے ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آ مریت کے قید سے نکال کر جان بخشی کرانے اور جمہوری نظام کی بحالی کے لیے بہت کچھ کیا لیکن سازش عالمی تھی اس لیے دنیا بھر سے رحم کی اپیلوں کے باعث بھی بھٹو کی جان بخشی نہیں ہو سکتی، میں سمجھتا ہوں کہ کامیاب اسلامی کانفرنس کا انعقاد اور اسلامی بم کا اعلان ان کی ایف۔ آ ئی۔ آ ر بنی، وہ اپنے آ پ کو تیسری دنیا کا لیڈر سمجھتے تھے کیونکہ قوم انہیں قائد عوام اور اسلامی دنیا ،،فخر ایشیا،، قرار دے چکی تھی لہذا دنیا بنی تماشائی اور بھٹو صاحب اپنے اصولی موقف پر سولی چڑھ گئے بات یہاں ختم نہیں ہوئی ان کی بیٹی اسلامی دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئیں
نواز شریف طاقتوروں کے پیارے بنے بلکہ وزیراعلی پنجاب

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.