فنکار نہیں، ایک مکمل انسان: عدیل برکی

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

6

جب کسی فنکار کے فن میں خلوص ہو، آواز میں تاثیر ہو اور شخصیت میں اخلاق ہو، تو وہ صرف گاتا نہیں، دلوں میں اُتر جاتا ہے۔ عدیل برکی بھی ایسے ہی ہمہ جہت اور شفاف طبیعت رکھنے والے فنکار ہیں، جنہوں نے اپنی آواز سے سماعتیں مسحور کیں اور اپنے کردار سے دل جیت لیے۔

لاہور کی علمی، ادبی اور تہذیبی فضا میں پروان چڑھنے والے عدیل برکی کا تعلق ایک ایسے خانوادے سے ہے جہاں تعلیم و ثقافت کی روایت گہری جڑیں رکھتی ہے۔ بچپن ہی سے تقریری مقابلے، نعت خوانی اور بزمِ ادب کا حصہ بننے والے عدیل نے گورنمنٹ کالج لاہور میں 83 مقابلے جیت کر اپنی صلاحیتوں کی ایسی مہر ثبت کی جو آج بھی سنہری لفظوں میں لکھی جاتی ہے۔

ان کی آواز میں سوز بھی ہے، رس بھی، اور ایک ایسا جذبہ جو روح کو چھو لیتا ہے۔ کلاسیکی گیت ہوں یا صوفی کلام، قومی ترانے ہوں یا نعتیں—عدیل ہر اس لفظ کو جیتے ہیں جسے وہ گاتے ہیں۔ لیکن اُن کی شخصیت کی اصل خوبصورتی اُس وقت نمایاں ہوتی ہے جب وہ اسٹیج سے اتر کر ایک حساس بیٹے، محبت کرنے والے شوہر، بچوں پر فخر کرنے والے باپ اور وفا دار دوست کے طور پر سامنے آتے ہیں۔

ان کی زندگی کا سب سے روشن اور روحانی پہلو اُن کی والدہ سے گہری محبت ہے۔ وہ اپنی ماں کو صرف ماں نہیں بلکہ اپنی پہچان اور اپنے خوابوں کا عکس سمجھتے ہیں۔ اُن کی وفات کے بعد عدیل نے اپنی والدہ کی یاد میں “بابو” کے نام سے جو خوشبو لانچ کی، وہ دراصل جذبات، شکرگزاری اور روحانی عقیدت کا ایسا تحفہ ہے جو صرف ایک بیٹا ہی دے سکتا ہے۔ یہ پرفیوم صرف خوشبو نہیں، ماں کے لمس، دعا اور قربت کی ترجمانی ہے۔

عدیل کے ہاں فن، گھر اور خلوص الگ الگ خانوں میں بند نہیں۔ وہ جتنا اپنے کام سے محبت کرتے ہیں، اتنے ہی اپنے رشتوں سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ان کی باتوں میں اپنی شریکِ حیات کے لیے محبت جھلکتی ہے، اور بچوں کے لیے فخر۔ دوستوں کے لیے اخلاص، بزرگوں کے لیے ادب اور چھوٹوں کے لیے نرمی ان کے مزاج کا حصہ ہے۔

ان کی شاعری کی دو کتابیں، “گستاخ نگاہی کا گلہ” اور “ذی حالِ مسکین”، اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ صرف فنکار نہیں، ایک حساس اور فکر مند شاعر بھی ہیں۔ ان کے اشعار قافیہ و ردیف سے آگے بڑھ کر دل کی دھڑکنوں سے بات کرتے ہیں۔

آج جب فن کی دنیا میں چکاچوند، مصنوعی پن، اور سستی شہرت کا ہجوم ہے عدیل برکی جیسے لوگ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اصل فن اندر سے آتا ہے۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ فنکار ہونا کافی نہیں انسان ہونا اصل ہنر ہے۔ ان کا سفر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ خلوص، خودداری اور رشتوں کی قدر انسان کو بلندی عطا کرتی ہے۔

عدیل برکی اسٹیج کی روشنیوں میں چمکتے ضرور ہیں، لیکن اُن کی اصل روشنی اُن کے باطن کی وہ لطافت ہے جو دعا، تہذیب، محبت اور انسانیت سے روشن ہے۔ یہی وہ روشنی ہے جو محفلوں کو جگمگاتی ہے، اور دلوں کو ہمیشہ کے لیے اپنا کر لیتی ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.