امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ پاکستان اور بھارت اپنے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا معاملہ خود ہی ’حل کر لیں گے‘۔
واضح رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد 23 اپریل کو سندھ طاس معاہدہ فوری طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا تھا اور پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹے میں بھارت چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔
بعد ازاں، اگلے روز (24 اپریل) وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا پانی روکنا اعلان جنگ تصور کیا جائے گا اور کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
ایئر فورس ون میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے اس صورتحال پر سوال کے جواب میں کہا کہ ان دونوں ممالک کے درمیان ’ 1500 سال سے کشیدگی چل رہی ہے، تو آپ جانتے ہیں، یہ ہمیشہ سے رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ لیکن وہ کسی نہ کسی طرح اسے حل کر لیں گے، مجھے اس کا یقین ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑی کشیدگی رہی ہے، لیکن ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ وزیر اعظم شہباز شریف یا نریندر مودی سے بات کریں گے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا کہ میں بھارت کے بھی بہت قریب ہوں اور پاکستان کے بھی بہت قریب ہوں، امریکی صدر نے مقبوضہ کشمیر کو متنازع خطہ اور مشکل معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا تنازع ہزار سال سے جاری ہے، شاید اس سے بھی زیادہ عرصے سے۔
دوسری جانب نیتن یاہو اور مودی کا گٹھ جوڑ بے نقاب ہوگیا، 20 اسرائیلی اہلکاروں کی مقبوضہ کشمیر پہچنے کی اطلاعات ہیں
ذرائع کے مطابق فلسطین کے نہتے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے بعد اسرائیل کا مودی سرکار کے ساتھ مذموم گٹھ جوڑ منظر عام پر آ گیا، پہلگام حملے کے پسِ پردہ ایجنڈا واضح طور پر بھارتی جنگی جنون کو مزید بڑھانا تھا۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق 15 سے 20 اسرائیلی اہلکار سری نگر، مقبوضہ جموں و کشمیر پہنچ چکے ہیں جوکہ تکنیکی ساز و سامان سے لیس ہیں۔
اسرائیلی اہلکاروں کی سری نگر میں آمد انتہائی تشویش ناک ہے، اسرائیلی اہلکاروں کی مقبوضہ کشمیر میں آمد، پاکستان کے خلاف مذموم مہم جوئی کی سہولت کاری ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں مودی سرکار پہلے ہی اسرائیلی طرز کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے کشمیریوں کا قتل عام کررہی ہے، اسرائیل اور مودی کا گٹھ جوڑ عالمی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
یاد رہے دلی سرکار کشمیر میں غیر کشمیریوں کو نسانے کی پالیسی پر گا مزن ہے جسے کشمیری قبول نہیں کرتے
انڈین میڈیا میں پہلگام میں سیاحوں پر حملے میں 27 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری کے حوالے سے جو نام بار بار لیا گیا ہے وہ ایک کالعدم عسکریت پسند گروپ ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ کا ہے۔
ان دعووں کی بنیاد اس تنظیم کے نام سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا ایک بیان ہے۔
ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے ٹی آر ایف سے منسوب اس بیان کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ نہ صرف اس بیان میں نہ تو ٹی آر ایف کے نام کا ذکر ہے اور نہ ہی گروپ کا لوگو موجود ہے جبکہ گروپ نے ماضی میں مسلسل بیانات میں اپنا نام اور لوگو استعمال کیا۔
یہی نہیں بلکہ وہ ماضی میں گروپ کے جاری کردہ ایسے بیانات سے بالکل مختلف بھی ہے جن میں مختلف حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی۔
کشمیر میں 1990 میں شورش کے آغاز کے بعد مسلح عسکریت پسندوں نے فوجی، نیم فوجی اور دیگر سکیورٹی اہداف پر تو درجنوں حملے کیے ہی ہیں مگر اس دورانیے میں شدت پسندوں کی جانب سے شہریوں کو ہلاک کیے جانے کے واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں۔
مسلح شورش کے آغاز کے بعد عسکریت پسندوں کی جانب سے سینکڑوں کشمیری شہریوں کو ’حکومتی مخبر‘ ہونے کے الزام میں ہلاک کیا گیا اور بعد کی دہائیوں میں بھی کشمیری ہندوؤں (پنڈتوں) کی بستیوں پر حملے کیے گئے اور وہاں عام شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔
جموں کے انگریزی روزنامہ ’کشمیر ٹائمز‘ کی مُدیر اور مُصنفہ انورادھا بھسین کے مطابق آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد انڈین حکومت نے جموں کشمیر میں سیاحت کو ’ایک سیاسی پراجیکٹ کے طور پر متعارف کروایا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ کشمیر میں ’نارملسی‘ (یعنی حالات نارمل ہونے) کا معیار یہاں بسنے والے عام شہریوں کی سوچ نہیں بلکہ سیاحوں کی آمد کو قرار دیا گیا تھا۔
انورادھا بھسین کہتی ہیں کہ ’انڈین حکومت کی جانب سے بتایا جاتا رہا کہ فلاں سال اتنے کروڑ سیاح کشمیر آئے اور اس سال اتنے کروڑ سیاح آ گئے اور پھر دلی میں بڑے رہنماوٴں نے بھی ایسی ایسی باتیں کیں جن سے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے باسیوں کو یہ تاثر ملا کہ انڈیا سے سیاح وہاں سیرسپاٹا کرنے نہیں بلکہ انڈیا کی جیت کا جشن منانے آتے ہیں۔‘
جموں یونیورسٹی میں جموں کشمیر کے امور سے متعلق انسٹیٹیوٹ کی سربراہ پروفیسر ایلورا پُوری بھی سیاحت کو ’نارمیلسی کا بیرومیٹر‘ (یعنی حالات کے نارمل ہونے کی دلیل یا پیمانہ) ماننے سے انکار کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ سیاح کسی بھی تعداد میں کشمیر آئیں مگر سیاحت کو سکیورٹی حالات نارمل ہونے کی علامت سمجھنا غلط ہے۔
سیاحت میں اضافے اور نارمیلسی کے دعوؤں سے متعلق پروفیسر ایلورا کہتی ہیں کہ ’چند سال کی خاموشی سے سیکورٹی ادارے بھی سمجھنے لگے تھے کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا، یہ اُسی غفلت کا نتیجہ ہے۔‘
ادھر امریکہ میں گزشتہ روز ایک بریفنگ میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے بھی جنوبی ایشیا میں پیدا ہونے والے بحران پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال ہے اور ہم اس پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں، ہم فی الحال کشمیر کی حیثیت پر کوئی موقف اختیار نہیں کر رہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی پاکستان اور بھارت سے ’زیادہ سے زیادہ تحمل‘ کا مظاہرہ کرنے