پاکستان کو انگیلا میرکل جیسی قیادت کی ضرورت

جرمنی کے پارلیمانی نظام میں حکومت کے سربراہ کو چانسلر کہا جاتا ہے۔

22

جرمنی کے پارلیمانی نظام میں حکومت کے سربراہ کو چانسلر کہا جاتا ہے۔ یہ وزیر اعظم کے عہدے کی طرح ہے۔
انگیلا میرکل 2005 میں جرمنی کی چانسلر منتخب ہوئی تھیں۔
وہ جرمنی کی تاریخ میں اس عہدے پر سب سے زیادہ عرصہ
فائز رہنے والی تیسری اور اب تک کی واحد خاتون چانسلر ہیں۔
انگیلا میرکل کو یورپی یونین کے ان پختہ کار سیاست دانوں میں سب سے زیادہ بااثر تصور کیا جاتا تھا
جو کسی بھی تنازع پر مزاکرات کی راہ نکالنے کا فن یا اس پر حتمی فیصلے کو موخر کرانے کا گُر جانتے ہیں۔
سولہ  برسوں میں انگیلا میرکل نے جرمنی میں لازمی فوجی تربیت کی شرط ختم کی۔
جوہری توانائی اور تیل سے بجلی کی پیداوار کے بغیر جرمنی میں توانائی کے حصول کی پالیسی کا تعین کیا۔
انگیلا میرکل کے دور میں کم از کم اجرت کا تعین کیا گیا اور ساتھ ہی
بچوں کی دیکھ بھال کے لیئے حوصلہ افزائی کرنے کی خاطر
والدین کے لیئے کئی مراعات بھی متعارف کرائیں۔
طویل دورِ اقتدار میں انگیلا نے کئی اُتار چڑھاؤ بھی دیکھے اور کئی بحرانوں میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ابھر کر سامنے آئیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد انگیلا میرکل کو کئی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔
انگیلا میرکل نے 2008 کے یورو بحران کے دوران کہا تھا کہ اگر یورو گِرا تو یورپ گِر جائے گا۔ 2008 میں یورپ کے معاشی بحران کے باعث
یورپی یونین کی کرنسی “یورو” کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تو انگیلا میرکل نے اس صورتحال کو سنبھالنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
بحرانوں سے نمٹنا انگیلا میرکل کی سب سے نمایاں خصوصیت تھی۔ چاہے وہ 2009 میں یورپ کا معاشی بحران ہو،
پناہ گزینوں کے بحران میں یورپ کو متحد رکھنے کا معاملہ ہو یا عالمی وبا سے مقابلہ۔
جب 2015-16 میں شام، افریقہ اور وسطی ایشیا سے یورپ آنے والے پناہ گزینوں کا بحران پیدا ہوا تو میرکل نے ملک میں ان کی آمد کا خیرمقدم کیا۔
انہوں نے لاکھوں پناہ گزینوں کو جرمنی آنے کی اجازت دی لیکن انہیں ملک کے اندر اور اپنے یورپی اتحادیوں کی جانب سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
یورو بحران کے دوران انگیلا کا موقف فیصلہ کن تھا۔ علاقائی معاملات میں ان کے انداز کو تحمل کی پالیسی قرار دیا جاتا ہے۔
جرمنی کے اندر تبدیلیوں کے اعتبار سے انگیلا میرکل کی پالیسیاں واضح ہیں۔
انگیلا میرکل کے حامی جاپان میں فوکوشیما کے جوہری بحران کے بعد جرمنی میں نیوکلیئر اسٹیشنز کی بندش کو بھی میرکل کا بڑا اقدام قرار دیتے ہیں۔
البتہ جرمن حکومت یقین دہانی کرا چکی ہے کہ 2038 تک بجلی کی پیداوار کے لیئے کوئلے کا استعمال ترک کر دیا جائے گا۔
سولہ برس کے دورِاقتدار میں انگیلا میرکل کی سب سے بڑی کامیابی تنازعات سے گریز ہے۔ جرمنی کے لوگوں کے لیئے یہی سب سے بڑا تحفہ تھا۔
پاکستان میں انتخابات کے بعد ایسی حکومت کی تشکیل ضروری ہے جو ملک کو مشکلات کی دلدل سے نجات دلانے کی بھرپور اہلیت رکھتی ہو۔
ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو قوم کے سامنے صرف معیشت کی زبوں حالی کے انکشافات نہ کرے
بلکہ اسے درست سمت میں گامزن بھی کرے۔ مسائل کا پائیدار حل تلاش کرے کہ عام آدمی کی حالت سنبھلے اور معیشت کا پہیہ رواں دواں ہو۔
اس مقصد کے لیئے دو باتیں بہت اہم ہیں۔
سب سے پہلے تو قوم کو یہ باور کرانا ہو گا کہ ہمارا اصل مرض کوئی اور نہیں، اقتصادی ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس بیماری کا علاج خود ہمارے پاس ہے اور وہ ہے، عوام کی یک جہتی، عزم، محنت اور لگن۔
لیڈرشپ کو پتہ ہونا چاہیئے کہ ملکی وسائل سے دولت حاصل کرنا ہو گی۔
لیڈرشپ کے پاس ایک بہترین معاشی ٹیم تیار کرنے کی صلاحیت ہو۔ قومی لیڈرشپ کو عالمی اور علاقائی صُورتِ حال کا ادراک ہونا چاہیئے۔
انہیں دنیا بھر خاص طور پر اپنے سرحدی ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانے کا فن آنا چاہیئے۔
خارجہ اُمور میں طویل مدتی اور فوری نوعیت کے فیصلے کر کے اُن کی افادیت قوم کو سمجھا اور اُن سے منوا سکے۔
دانشمندی، دوراندیشی اور معاملہ فہمی ہی قوموں کو آگے لے کر چلتی ہے۔
آج ہمیں جس قدر قومی اتحاد و یگانگت کی ضرورت ہے پہلے شاید کبھی نہ تھی۔ جو بھی قومی لیڈر ایسا کرے گا
وہ تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑا ہو گا اور پاکستان کو اس وقت ایسی ہی قیادت کی ضرورت ہے۔

تحریر ۔۔۔ مرزا روحیل بیگ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.