عزم ، ہمت ، حوصلے کی عجب داستاں

پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبدالرحمان #حق #سچ (علی عمران شاہین)

0

فیصل آباد میں پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبدالرحمان مکی رحمہ اللہ کی حیات و خدمات کے سلسلے میں ایک بڑا سیمینار منعقد تھا،اختتامی مراحل میں برادر محمد احسن تارڑ ڈائس پر تشریف لائے اور کہنے لگے کہ مکی صاحب کی بیٹی شدید علالت کے بعد وفات پا چکی تھیں اور اتفاق سے اگلے دن ان کا ہمارے پاس پروگرام تھا۔ ہم اسی تذبذب اور کشمکش میں تھے کہ ہم نے تیاری بھی کافی شد و مد سے کی ہے، پتہ نہیں حافظ صاحب تشریف لاتے ہیں یا نہیں اور نہ آنے کا امکان زیادہ تھا کہ گھر کا فرد دل کا جگہ گوشہ جدا ہو چکا تھا لیکن بعد جنازہ ان کی طرف سے پیغام آیا کہ آپ پریشان نہ رہیں ، آپ کا پروگرام ضرور ہوگا اور اگلے دن وہ حسب وعدہ ہمارے پاس بروقت تشریف بھی لے آئے اور اس بات کا احساس بھی ہمیں نہ ہونے دیا کہ وہ کس کرب اور درد سے گزر کر یہاں پہنچے ہیں۔ ان کے اس احسان اور جذب نے ہمیں بھی جہاں حیران کر دیا وہیں ہمارے حوصلوں کو بھی ہمیشہ کے لیے جیسے دو آتشہ بھی کر دیا کہ وہ اپنی تکلیف کیسے پس پشت ڈال کر ہماری محنت اور جماعت کے معاملات سامنے رکھ کر ہمارے پاس چلے آئے۔
پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مکی کی ساری زندگی ایسی ہی بلا خیز حیران کن داستانوں سے عبارت رہی۔ اللہ نے تین بیٹے عطا فرمائے تھے۔ ایک بیٹی کے علاوہ دو بیٹے سب سےبڑا اور سب سے چھوٹا دونوں ہی کینسر جیسے مرض سے دوچار ہوئے اور اللہ کے پاس چلے گئے۔ بڑے بیٹے کے بعد سب سے چھوٹی اولاد پیاراو راج دلارا بیٹا احمد تھا۔ احمد میں تو جیسے ان کی جان اٹکی ہوتی۔سفر ،حضر مجلس برخواست گھر مسجد ہر جگہ ہمہ وقت ہی وہ ان کے ساتھ جیسے چمٹا رہتا، آپ کبھی اسے آنکھوں سے اوجھل تک نہ ہونے دیتے۔ ان کا سارا روزہ مرہ کا شیڈول بھی اسی کے پاس ہوتا، 11 سال کی عمر کے قریب پہنچتے ہی احمد کی حالت بگڑی اور پھر اسے چلڈرن ہسپتال میں داخل کروانا پڑا۔ احمد لگ بھگ ایک سال ہستپال میں داخل رہا۔ ہر لمحہ پہلے سے تکلیف دہ ہوتا تھا اور جہاں اس کی ایک سانس آتی دوسری جاتی تھی، ویسی ہی کیفیت مکی صاحب کی بھی ہوتی۔ آپ نے وہ سال بڑے کرب و درد میں جیسے کانٹوں پر چلتے پل صراط و قیامتوں سے گزرتے گزارا، جب کبھی ملک کے جس شہر سے واپس آتے تو گھر کے بجائے ہستپال کا رخ کرتے ، زیادہ تر وقت اسی کے پاس وہیں گزارتے ، وہیں سوتے اٹھتے بیٹھتے جاگتے، وہیں سے سفر کرتے لیکن اس حال میں بھی کبھی کوئی خطبہ جمعہ چھوڑا نہ کبھی کوئی اور پروگرام ، اور اس بیچ کسی جگہ بھی اپنے اوپر بیتتی اس قیامت کا تذکرہ بھی نہ کرتے نہ کسی کو محسوس ہونے دیتے کہ وہ کہاں سے کس حال میں آ رہے اور واپس کہاں جانے والے ہیں۔ ویسے ہی ایک جیسے پہلے جیسے ہلکے پھلکے انداز میں مسکراتے، سب کو ملتے ، پوری محبت عطا کرتے اور اسی محنت مطالعہ کے ساتھ جذب و شدت سے خطاب فرماتے۔ کبھی سٹیج پر بلکہ مجلس میں بھی کس کے سامنے اپنے بیٹے اپنی کسی تکلیف کا ذکر نہ کیا اور کسی کو اپنی تکلیف کا احساس نہ ہونے دیا۔ احمد کی جب آخری سانسیں چل رہی تھیں اور حالات ورپورٹس سے صاف نظر آ رہا تھا کہ احمد کسی بھی وقت اللہ کے پاس پہنچ سکتا ہے، تب ان کا ایک پروگرام ملتان میں تھا۔ انہوں نے ساتھیوں سے کہا کہ وہ پروگرام میں شامل و مخاطب ہوں گے۔ انہوں نے اپنے امیر صاحب سے اس کے لیے خصوصی اجازت طلب کی کہ وہ انہیں جانے دیں اور سفر سے نہ روکیں اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ ملتان سے واپس ہستپال پہنچے تو احمد آخری سانسیں لے کر ان کے دل و روح کو جیسے اجاڑ کر جہانی فانی سے رخصت ہو رہا تھا۔
احمد بھی چلا گیا لیکن کمال صبر استقامت و استقلال و حوصلہ دیکھیں کہ ہم نے ان پے در پے حادثات جانکاہ اور زخموں پر زخم لگنے کے باوجود انہیں کبھی ان پر افسوس و افسردگی کا اظہار تو کجا ذکر تک کرتے نہ دیکھا۔ان سب تکالیف کے انبوہ سے گزرتے بھی وہ اپنی سرگرمیاں اسی شد و مد سے جاری رکھتے اور کسی طرح آڑ نہ بننے دیتے۔
یہ بات تو سبھی کے علم میں ہے کہ وہ ملک کی تمام نظریاتی تحریکوں کے سرخیل رہے ، جب ملک میں شوشلزم کے نعرے لگ رہے تھے تو وہ اس کے بھی خلاف چٹان بن کر کھڑے ہوئے ۔ رعب و دبدبے کا یہ عالم تھا کہ بہاولپور کے تعلیمی ادارے ہوں یا پنجاب یونیورسٹی ، ہر جگہ ان کا نام دبنگ انداز میں گونجتا اور سیکولرز ، لبرلز ، ملحد اور سرخے سبھی ان کا نام سن ہی بھاگ کھڑے ہوتے۔ بنگلادیش نامنظور تحریک کے جہاں روح رواں رہے ،وہیں تحریک ختم نبوت کے بھی طلبہ کے کماندار رہے۔1977/78 کی بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفیٰ چلی تو اس میں گرفتار ہوئے تو انہیں بادشاہی قلعے میں قید کیا گیا۔ ان پر ظلم و تعدی ، جور وستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ جسم پر پولیس نے رولر پھیرے ( جس میں قیدی کو الٹا لٹا کر ایک ڈنڈا رکھ کر اس پر دو بندے کھڑے کیے جاتے اور اس ڈنڈے کو اس بوجھ کے ساتھ گھمایا جاتاہے) اس قہر سے گزرنے کے بعد ان کی ٹانگیں جیسے ہمیشہ کے لیے نیم مفلوج ہو گئیں۔ رہا ہوئے تو عنفوان جوانی پر تھے، اسی لیے اسے محسوس نہ ہونے دیتے لیکن جب 1994 میں پاکستان تشریف لائے تو اس تکلیف میں از حد اضافہ ہو چکا تھا ۔ ( شاہی قلعے میں سزائے موت کا بھی فیصلہ ہوا لیکن اللہ نے مہلت رکھی ہوئی تھی ، عمل درآمد نہ سکا تھا اور آپ کو آزادی مل گئی)
جسمانی عوارض کو پس پشت ڈال کر پمیشہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے ،

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.