ہنوز دلی دور است

88

تحریر: عاصم نواز طاہرخیلی

ہر رات کی طرح سو کر جاگا تو سورج کی پہلی کرن اور سویرا بھی ویسا ہی تھا جس کو ہوش سنبھالتے ہوئے دیکھتا آیا ہوں۔ آبادی کثیر ہونے اور کچے گھر پکے ہو جانے کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ وہی گلیاں، وہی روڈ اور پھیلے ہوئے شہر دیہات جن کے گھروں، دکانوں، دفتروں میں روپ بدل بدل کر وہی کچھ ہورہا ہے۔ وہی امیر اور غریب کا فرق، وہی جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور وہی عوام کا استحصال۔
با اثر لوگ پہلے بھی نہیں پکڑے جاتے تھے اور اب بھی مزے میں ہیں۔ تھانوں میں جائیں تو آپ کو حوالات کے پیچھے غریب غرباء ہی نظر آئیں گے۔ روڈ پر جائیں تو ٹریفک پولیس موٹر سائیکلوں رکشوں کو تو پہلے ہی کی طرح روکتے نظر آئیں گے جبکہ بڑی گاڑیاں اب بھی ان کے سیلوٹ لے کر آزادانہ جاتی نظر آئیں گی۔ نئی بننے والی آبادیوں میں سیاست دان، جج، ڈاکٹر، بڑے تاجروں، رشوت خور افسران، رشتہ داروں کا حق مار کر جائیدادیں بنانے والوں اور دیہات سے شہر کی طرف آجانے والے جاگیرداروں کے بنگلوں کوٹھیوں ہی کی کثرت نظر آئے گی۔ غریب پہلے بھی خوار تھا اور اب بھی کچی آبادیوں میں غریبی جانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ دکاندار پہلے بھی رمضان ، عیدین اور عام دنوں میں غریب کی جیب کترتے تھے اور ابھی بھی یہی حال ہے۔ پرانے سستے وقتوں میں بھی غریب بے حال ہی تھا اور اب بھی غریب ہی کی حالت خراب ہے۔
دفاتر میں چلے جائیں تو پہلے بھی نیچے سے اوپر تک Look Busy Do Nothing کا کلچر تھا اور اب بھی تقریباََ وہی حال ہے۔ پہلے بھی امراء کسی غریب کا چولہا جلانے کے بجائے عمرہ حج کرتے نظر آتے تھے اور اب بھی دو دو عمرے اور حج کرنے والوں کے دیہات اور پڑوس میں غریب کی بیٹی کے سر میں چاندی آجاتی ہے۔ پہلے بھی رشوت اور سفارش کام کرتی تھی اور اب بھی اسی کا چلن ہے۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ گیس بجلی پہلے بھی نہیں تھی اور اب بھی اپنا ہونا نہ ہونا ایک ہی ثابت کر رہی ہے۔ مزارات پر پہلے ہی کی طرح اب امیر نیاز کی دیگیں پکوا کر نجات ڈھونڈتے ہیں۔ پہلے ہی کی طرح تاجر اور کارخانہ دار، افسران اور دیگر صاحب ثروت لوگ اور ان کی بیگمات ایک دوسرے کی دعوتیں کر کے فائدے لے رہے ہیں۔ حقدار اب بھی مشکلات میں گھرا ہے۔
کالجوں یونیورسٹیوں کی طرف جائیں تو تقریباََ وہی پرانا کلچر اب بھی موجود ہے۔ کلاسیں کم اور موجیں زیادہ، نشہ اور بے حیائی بھی روپ بدل بدل کر ویسے ہی ناچ رہی ہے۔ اب بھی بس سٹاپوں پر دوسروں کی ماؤں بہنوں کو اس خوش فہمی کے ساتھ تاڑنے کا رواج باقی ہے کہ ان کی اپنی عزتیں محفوظ ہیں۔
ہسپتالوں میں اب بھی دوائیں نہیں ملتیں، غریب اور متوسط طبقہ بے حال ہے۔ کیا کیا بتاؤں دوستو! کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ نہ سیاست کا انداز، نہ غریب مزدور کا مقدر اور نہ ہی امیدوں کے جلتے بجھتے چراغ۔ ہنوز دلی دور است۔ ٹی وی، اخبار اور دیگر میڈیا اب بھی اقتدار والوں کی میوزیکل چیئر کا حصہ ہے۔ نہ آئین کی پاسداری، نہ ملکی معیشت کی بہتری کی سوچ۔ وہی طبقات میں بکھری ہوئی قوم اور نئے روپ میں پرانے چہرے جو خود بھی کٹھ پتلیاں ہیں۔
مندرجہ بالا تمام باتوں کے باوجود دعا ہے کہ اس ملک کی تقدیر بدلے اور ایسا وقت دیکھنا نصیب ہو کہ سب دکھوں، پریشانیوں اور مشکلات کا ازالہ ہو جائے۔۔
آمین ثم آمین۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.