ہمارۓ بزرگ کہتے تھے کہ باپ کا دوست بھی باپ جیسا ہی قابل احترام ہوتا ہے ۔گذشتہ دنوں میرے محترم سعید احمد صاحب مدیر پندرہ روز “حقیقت ” میگزین بہاولپور جنہیں بہاولپور کی صحافت کا بلا شبہ ایک بہت محترم اور بڑا نام سمجھا جاتا ہے ۔جن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے بہاولپور کے تمام بڑے اور مایہ ناز صحافیوں اور نامور دانشوروں سے صحافتی امور پر رہنمائی حاصل کی اور میرے والد مرحوم مجاہد کشمیر لفٹیننٹ (ر) محمدایازخان مرحوم جیسے درویش کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں اور انہوں نے اباجی سے اپنی محبت اور عقیدت کا یہ تعلق ہمیشہ استوار رکھا۔یہی وہ نسبت ہے جو ان کی مجھ جیسے ناچیز سے پیار اور شفقت کی وجہ بنی اور انہوں نے گھر تشریف لاکر مجھ ناچیز کو ناصرف عزت بخشی بلکہ اپنے سفر نامے “چشم دید پاکستان ” کے ایک قیمتی نسخے سے بھی نوازا ۔پچھلی تقریبا” نصف صدی سے میدان صحافت میں ان کی خدما ت کی ایک طویل جدوجہد کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور اپنے اجداد کی وراثت اور ان کے خون سے پاکستان سے محبت تو ان کی رگ رگ میں بسی ہے اور یہ سفر نامہ یقینا” ان کی اسی محبت اور عقیدت کا تحریری ثبوت ہے ۔میں جوں جوں یہ سفر نامہ پڑھتا گیا مجھے پاکستان سے ان کی بےپناہ محبت اور اسکی مٹی سے جڑی عقیدت کا احساس بھی مزید بڑھتا چلا گیا ۔ اس سے قبل ان کی پہلی تخلیق ” عقیدتوں کا سفر “منظر عام پر آچکی ہے اور ایک ادبی اورصحافتی سرمایہ سمجھی جاتی ہے ۔بقول تابش الوری صاحب سیاحت جب جغرافیہ میں اتر کر کتابیات میں ڈھلتی ہے تو تاریخ بن جاتی ہے اور جب نظاروں سے گزر کر تحریر میں نکھرتی ہے تو سفر نامہ کہلاتی ہے “میں اس میں اتنا اضافہ ضرور کر و نگا کہ جب سیاحت اپنے ہی ملک اور وطن کی ہو تو عقیدت اور شاید عبادت بھی بن جاتی ہے ۔چشم دید پاکستان میں سعید احمد صاحب نے یہ فریضہ جس خوبصورتی سے اد کیا ہے وہ یقینا” خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔
کہتے ہیں کہ کوئی بھی سفر نامہ محض راستوں اور منزلوں کی روداد ،داستان یا منظر نامہ نہیں ہوتا یہ دل کی واردات آنکھوں کی بینائی اور روح اور جسم کی وہ گواہی ہوتاہے جو ایک ایک حرف سے جھلکتا دکھائی دیتا ہے اور پھر جب قلم کسی ایسے بلند پایہ دانشور صحافی کے ہاتھ میں ہو جس کی پوری زندگی صحافتی تجربات سے اور دل پاکستان کی محبت سے لبریز رہتا ہو تو ایسی تحریر ایک یادگار صحیفہ جیسی بن جاتی ہے ۔یہ سفر نامہ پاکستان کے شہروں ،وادیوں ،پہاڑوں ،گلیوں ،بستیوں ،بازاروں کی سیر کے ساتھ ساتھ اپنے وطن سے ایک عاشقانہ مکالمہ بھی محسوس ہوتا ہے ۔جس میں ہر منظر ایک دعا ،ہر ملاقات ایک تحفہ اور ہر لمحہ ایک تشکر کی گونج لیے ہوۓ دکھائی دیتا ہے ۔
یہ سفر نامہ پاکستان کے چہرۓ کو ایک ایسی نگاہ سے دیکھتا ہے جو محض صحافی ،ادیب یا دانشور ہی کی نہیں بلکہ ایک ایسے محب وطن عاشق اور عقیدت مند کی ایک خاص نگاہ ہے ۔وہ جگہیں جو عام آنکھوں سے محض زمین کا ٹکڑا اور حصہ لگتی ہیں ۔اس تجربہ کار اور کہنہ مشق صحافی کی آنکھ میں تاریخ ،ثقافت اور جذبوں کا مرقع بن کر ابھرتی ہیں ۔۔ان کی تحریر میں نہ صرف منظر نگاری کا سحر ہے بلکہ الفاظ میں سادگی کے ساتھ ساتھ وہ شوق واحترام بھی جھلکتا ہے جو ایک کسی بھی محب وطن فرد کو اپنی مٹی سے ہوتا ہے ۔ یہ سفر نامہ صرف جغرافیہ کا بیان نہیں ہے بلکہ ایک دل کی دھڑکن ہے جو پاکستان کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے ۔ لگتا ہے کہ ہر ہر وادی ، قصبہ ،ہر چہرہ ،ہر درخت ،ہر پہاڑ ،جیسے ان کے دل پر ثبت ہو چکا ہے ۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سفرنامہ ایک ایسی تاریخ ہوتا ہے جو حقیقت سے زیادہ قریب اور سچائی پر مبنی ہوتا ہے ۔سفر نامہ صرف کسی علاقے کی سیر ہی نہیں کراتا بلکہ وہاں کی ثقافت ،رہن سہن ،رسم ورواج اور بود باش کی تصویر کشی بھی کرتا ہے اور اس میں وہاں کی طرز زندگی کی عکاسی بھی دکھائی دیتی ہے ۔وہ ایک جانب وہاں کی بےشمار نعمتوں کا ذکر کرتے ہیں تو دوسری جانب ان کی محرومیوں اور مشکلات کا دکھ بھی بیان کرتے ہیں ۔وہاں کی علاقائی سیاست اور مقامی سیاستدانوں کا تذکرہ بھی دکھائی دیتا ہے جو کسی سفر نامے میں ایک کہنہ مشق صحافی ہی کر سکتا ہے۔چولستان کی خشک سالی اور پہاڑوں پر بارشوں اور برف باری کی تکالیف کو محسوس کرنا اور پھر ایسی خوبصورتی سے بیان کرنا ان کی ادبی ،صحافتی فنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے ۔مذہبی مقامات پر حاضری پر روحانی جذبات اور قلبی سکون کی کیفیت نمائیاں دکھائی دیتی ہے ۔جبکہ تاریخی مقامات کی اہمیت ،پس منظر اور وہاں کے واقعات کا بیان سفر نامے کو اور بھی دلچسپ بنا دیتا ہے ۔کہتے ہیں کہ مصنف کے ذاتی مشاہدات اور تجربات کسی بھی سفر نامے کی جان ہوتے ہیں جسے زبان کی سادگی ، عمدہ اور شائستہ زبان و بیان مزید دلکش اور پر اثر بنا دیتا ہے ۔یہ سفر نامہ جو پاکستانیت ،انسانیت ،بھائی چارۓ اور امن و محبت کا پیغام لیے ایک ایسا ریکارڈ مرتب کرتا دکھائی دیتا ہے جو آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔یہ سفر نامہ قارئین کے سفری ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ ایک منفرد روحانی ،جذباتی اور ثقافتی تجربہ بھی فراہم کرتا ہے ۔
ان کی زبان میں سادگی اور دل میں خلوص تحریر میں نمائیاں نظر آتا ہے ۔کسی وادی کی خوبصورتی بیان کرتے وقت بھی وہ اس کے باسیوں کی خواہشات ،توقعات ،امیدوں ،محرومیوں اور مشکلات کو نہیں بھولتے ۔یہ سفر نامہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ پاکستان صرف ایک ملک نہیں ،ایک احساس ہے ،ایک وعدہ ہے ،ایک امانت ،ایک ایسا لازوال تحفہ ہے جو لاکھوں مسلمان شہداء کی قربانیوں سے مل سکا ہے ۔جس سے محبت صرف زبان سے نہیں بلکہ دل سے کی جاتی ہے ۔صحرا چولستان کی ریت اور گرمی ہو ، یا بالائی علاقوں کے پہاڑ اور سردی ،بلوچستان اور کوہ سلیمان کے پتھریلے سنگلاخ اور وسیع راستے ،یا پھر کراچی اور گوادر کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ،کافرستان اور بلتستان کے دلفریب نظارے ہوں یا پھر خنجراب کا طویل سفر ہو یا ناران کا بہتا ہوا ٹھنڈا اور صاف پانی ہر چیز کا احاطہ کر کے قاری کے سامنے یوں پیش کیا ہے جیسے قاری بھی ان کا ہم سفر ہو اور یہ سب اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہو ۔کشمیر کے زلزلے کا ذکر ہو یاگڈانی میں اٹکھیلیاں کرتے پانی کی کہانی ہو ،سندھ یا وادی مہران کی زرخیزی ،دیوسائی کا سرسبز میدان ہو ،پہاڑوں کی ملکہ مری کا حسن ،بزرگوں کے مزارت یا تاریخی عمارات اور قلعے ، جھیلوں کی خاموشی ہو یا دریاوں کی لہروں کا شور ،چترال کے پولو گراونڈ میں بجتا ڈھول ہو ، یا خوشی سے سرشار موسیقی اور رقص یا وہاں کی جنگلی حیات کی بہتات ،خطرناک پہاڑی راستے یا گرم پانی کے چشمے ،برف پوش پہاڑ اور گلیشیر ہوں یا قدرتی ٹھنڈے پانی کے چشمے ،لگتا یہی ہے کہ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے ۔ مقام کی خوبصورتی ،جغرافیہ اور ماحول کی منظر کشی اور عمارات ،عبادت گاہوں اور یادگاروں کی وضاحت ایسے کی گئی ہے کہ قارئین اس مقام کا تصور باآسانی خود کر سکیں ۔گو وطن کی محبت میں ڈوبا ہوا یہ پورا سفر نامہ ہی اس قابل ہے کہ اسے اپنے کالم کا حصہ بنادیا جاۓ لیکن ” اپنی کوتاہی فن یاد آئی “
یہ ایک منفرد سفر نامہ چشم دید پاکستان امحض پاکستان کے مشاہدۓ کا ریکارڈ نہیں بلکہ ایک جذباتی وصیت ہے ۔اس نہایت معتبر صحافی اور دانشور کا قلم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وطن سے محبت صرف نعرہ نہیں ،ایک طرززندگی ہے ۔ان کی تحریر میں نسل کی وہ فکری گہرائی اور قلبی سچائی ہے جسے ہم آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے پابند ہیں ۔یہ سفر نامہ ہمیں رک کر سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے پاکستان سے کتنی محبت کرتے ہیں اور کیا ہم بھی ایسی ہی بے لوث وابستگی کے وارث بن سکتے ہیں ؟ جس کی جھلک سعید احمد صاحب کے سفر نامے کی اس تحریر میں دکھائی دیتی ہے ؟ ہر پاکستانی کے لیے مٹی کی محبت میں لکھے گئی ایسی تحریر یں پڑھنا بے حد ضروری ہے ۔اللہ سے دعا ہے کہ سعید احمد صاحب جیسے محب وطن اوردرد دل رکھنے والے لوگ سدا سلامت رہیں اور یونہی ارض وطن کی سیروسیاحت کا اپنا سفر جاری رکھتے ہوۓ “پرورش لوح وقلم کرتے رہیں ”