میرے دل کے کونے میں ایک دیا ہمیشہ روشن رہتا ہے ، کبھی کبھی تیز آندھی اسے بجھانے کی کوشش کرتی ہے مگر بجھتا ہوا چراغ تھوڑی سی تپش سے پھر جل اٹھتا ہے اور جگنو بن کر ہواؤں کے ساتھ اڑتا ہوا ہر مسافر تک جانا چاہتا ہے جہاں متلاشی آنکھیں اس دیئے کے انتظار میں جل رہی ہوتی ہیں، دنیا کا ہر انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے عقل انسان کی روح میں چھپا ہوا وہ خزانہ ہے جو زندگی کے سفر میں کانٹوں اور پتھروں کی شناخت کرواتے ہوئے انسانی وجود کو سکون کی تلاش میں گامزن رکھتا ہے مسائل اس وقت شروع ہوتے ہیں جب انسان خود کو عقلمند سمجھنے لگتا ہے اور تکبر کے بت کی پوجا شروع کر دیتا ہے خود پسندی کی آگ اس کی عقل کو راکھ کر دیتی ہے اور کم عقل لوگ خوشامد کے پرکشش تیروں کے وار سے دوسروں کی عقل چرا لیتے ہیں ، خود پسندی میں مبتلا انسان ایک دن خود ہی اپنی آنکھوں پر جہالت کی پٹی باندھ لیتا ہے حقوق العباد ادا نہیں کر سکتا اور خود کو تلاش کیئے بغیر تکبر کی آگ میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے اسی لیئے ہم لوگ خود فریبی میں مبتلا ہو کر فریب زدہ ہو جاتے ہیں بے وقوف انسان دل کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر زندگی کی حقیقت سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے حسد غیبت مکاری اور چالاکیوں کا سہارا لیتے ہوئے جھوٹ پر مبنی زندگی گزارتے ہوئے بہت سے انسانوں کو اپنے مفادات کے لیئے استعمال کرنے کی کوشش میں مشغول رہتا ہے سچ تو یہ ہے کہ مکار انسان اپنی زندگی کے ڈرامے کی دو اقساط کے بعد ہی پہچانا جاتا ہے یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ لوگ اس کی ذات کا بھرم رکھتے ہیں اور چالاکیوں کا جال بنتے بنتے نادان شخص ایک دن جہالت کے اندھیرے کنویں میں گر جاتا ہے جسے وہ دکھوں کا نام دے کر خود فریبی میں مبتلا ہو جاتا ہے