اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

احساس کے انداز تحریر :۔ جاویدایازخان

5

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی بلوچستان کے دور دراز علاقے کی ایک ویڈیو نے پورے پاکستان میں قیامت سی برپا کر دی ہے ۔ویڈیو کے دردناک مناظر اور دو انسانی جانوں کی موت کا خوفناک منظر ہر انسان پر  لرزہ سا طاری کردیتا ہے ۔سوشل میڈیا پر اس واقعہ کے بارے میں بےشمار خبریں ،تبصرے اور تجزیے گردش کر رہے ہیں  ہر شخص اپنے اپنے ذہن اور سوچ کے مطابق اس واقعہ کہ مذمت کرتا دکھائی دیتا ہے ۔کوئی اس کے انسانی پہلو ،کوئی مذہبی پہلو ،کوئی اخلاقی پہلو ،کوئی روائتی پہلو ،کوئی خواتین کے حقوق کے پہلو اور کوئی  سرداری نظام اور حکومتی رٹ کے پہلو پر اظہار خیال کر رہا ہے ۔کہتے ہیں کہ یہ واقعہ ماہ جون میں ہوا اوراسکی ویڈیو اب منظر عام پر آئی ہے جب کئی ماہ گزرچکے ہیں ۔سب سے بڑا سوال یہ ہےکہ آخر یہ ویڈیو  کس نے بنائی اور اتنے دن کہاں تھی اور اب ایسی کیا مجبوری آن پڑی تھی کہ اسے ریلیز کرنا پڑا ؟ یہ ویڈیو سوشل میڈیا تک کیسے پہنچی ؟ ان سوالات کا جواب ملنا دشوار ہو گا ؟ لیکن درحقیقت یہ ویڈیو بنانے والا ہی اس واقعہ کا چشم دید گواہ ہو سکتا ہے ۔بلوچستان کے وزیراعلیٰ کی پریس کانفرنس سن کر اور بھی حیرت ہوئی کہ انہیں بھی پچھلے دو ماہ قبل ہونے والے اس واقعہ کا ادراک نہ تھا جو صوبائی حکومت  کی  بے خبری کی غمازی کرتا ہے اگر ادراک تھا تو پہلے کاروائی کیوں نہیں کی ؟ ۔  اطلاعات کے مطابق ویڈیو میں دکھائی دینے والےپندرہ میں سے   بارہ افراد گرفتار ہو چکے ہیں  ۔لیکن کیا انکے خلاف کوئی  چشم دید گواہ مل سکے گا ؟ کیا سزا مل سکے گی  ؟  اس واقعہ کی مذمت کے بارے میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر اسقدر شور مچ چکا ہے کہ اس واقعہ کا شاید کوئی بھی پہلو ایسا نہیں نظر آتا جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہ گیا ہو یا جس پر مزید کچھ لکھا جا سکے ۔پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس خاتون کو سات گولیا ں ماری گئیں ذرا سوچئے یہ کیسی گولیاں تھیں ؟  جن گولیاں کی گونج آج پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا مین سنائی دے رہی ہیں ۔سر اٹھا کر جینے کی قیمت ادا کرکے  وہ امر ہو گئی ۔سوشل میڈیا جیت گیا دقیانوسی روایات شکست کھا چکی ہیں ۔  نہ ہونٹوں پر کوئی فریاد ، نہ ماتھے پر کوئی شکن ، نہ گھبرائی ،نہ لڑکھڑائی  ،نہ زبان تتلائی ،نہ قدم ڈگمگاۓ  ،نہ زندگی کی بھیک مانگی ،ہ نہ کوئی منت سماجت  کی ،ہاتھ میں قرآن شریف  کو  پکڑے خاتون کے تاریخی لفظ “صرف گولی کی اجازت ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ” تاریخ کا حصہ بن چکے ۔وقت کے صفحات پر لکھا گیا  یہ جملہ انمٹ ہو چکا ہے ۔ پہلی گولی اس کی ہمت کے نام ،دوسری گولی  محبت کے نام ،تیسری گولی بیٹی ہونے کےجرم کے نام ،چوتھی گولی   اس کی جرت اور خاموشی کے نام ، پانچویں چھٹی اور ساتویں گولیا ں جھوٹی انا اور غیرت کےنام پر بیٹیوں کو تحفہ ،یہ گولیاں جو خاموشی میں بھی اتنا شور  چھوڑ گئیں کہ عرش لرز اٹھا ۔پھر وہ قرآن کو سینے سے لگاۓ کلمہ پڑھتے ہوۓ ابدی نیند سو گئی ۔اس کا چہرہ پرسکون تھا ۔سب لوگ کھڑے دیکھتے رہے “آسمان  ہی گرا نہ زمین ہی پھٹی ۔یہ بات کچھ بھی تھی ،یہ واقعہ کچھ بھی تھا لیکن اپنی عدالت، اپنا فیصلہ  اور اپنی سزا کا اختیا ر ان مسلح گروہوں کو کون دیتا ہے ؟ کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہ قانون دیتا ہے نہ ہمارا مذہب اسلام دیتا ہے ۔بلکہ ارشاد ربانی ہے کہ  جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت  کو قتل کیا ۔کاروکاری  جیسی عجیب اور ظالمانہ رسمیں ہمارے قبائلی  سماج کا حصہ رہی ہیں کچھ رسمیں وقت کے ساتھ ختم ہو گئیں لیکن کچھ آج بھی جاری ہیں ۔تاریخ بتاتی ہے کہ محبت کی سزا ہمیشہ موت رہی ہے چاہے وہ ہیر رانجھا ہوں یا سسی پنوں اور مرزا صاحباں سب مر کر ہی امر ہوۓ  ۔کہیں زہرکہیں تیر اور کہیں گولی  سزا صرف موت ہے ۔اس کا جرم کیا تھا وہ خود بتاتی رہی اس نے نکاح کیا ہے   زنا نہیں ” محبت ہار گئی غیرت جیت گئی ۔دراصل ہم آج بھی ظلم کو “ثقافت ” اور روایت کا نام دے کر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔شاید اس جدید دور میں بھی  ہم سیکھنے ،بدلنے اور آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں ؟  مجھے یقین ہے کہ اس خاتون کا لہو رنگ لاۓ گا  اور اس کے گناہ گاروں کو سزا کے کٹہرے میں ضرور لایا جاۓ گا ۔انشااللہ ایک دن بلوچستان کی  اس مظلوم  بیٹی کے قاتل اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے ۔اگر دنیا میں ممکن نہ ہوا تو ایک عدالت اوپر بھی لگ چکی ہے جہاں کوئی اثر رسوخ کام نہیں آتا ۔

میں کئی روز سے اس واقعے کے بارۓ میں لکھنے کو قلم اٹھاتا  ،پھر لفظ ڈھونڈتا ،جملے تلاش کرتا مگر عجیب عجیب سے خیالات ذہن میں آتے جو انہیں منتشر کر دیتے۔پھر میں دیکھتا ہوں کہ یہ سب بلوچستان میں ہی نہیں ہو رہا ہے ۔ہمارے اردگرد بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے ۔ایک طرف نکاح کرنے پر قتل دوسری جانب نکاح نہ کرنے پر قتل ؟ کیا عورت کا مقدر قتل  ہی ہے ؟خبر یہ ہے کہ جھنگ گی انیس سالہ طالبہ کو اس وقت قتل کردیا گیا جب وہ راولپنڈی یونیورسٹی سےگھر واپس آرہی تھی ۔ملزم جو اس کا رشتے دار بتایا جاتا ہے پہلے اسے اغوا کرتا ہے  پھر زہریلی چیز کھلا کر مار دیتا ہے وجہ صرف یہ کہ لڑکی کے والدین نے اس کا رشتہ ٹھکرا دیا تھا ۔بچیوں اور عورتوں پر تیزاب گردی تو بڑا پرانا حربہ ہے جو زندگی کی خوشیاں چھین کر زندہ درگو ر کر دیتا ہے ۔ عجیب معاشرہ ہے کہ بیٹے سے غلطی ہو جاےتو باپ اسے بچانے کی پوری کوشش کرتا ہےاور غلط اور قصور وار جان کر بھی اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے یہاں تک کے متاثرہ خاندان کے  پیر پکڑ کر معافی مانگنے سے بھی دریغ نہیں کرتا بڑے بڑے جرمانے یہاں تک کہ معافی کے لیے بیٹیوں کے رشتے تک دینے پڑتے ہیں ۔لیکن بیٹی  سے اگر خدا نہ کرۓ وہی غلطی سرزد ہوجاۓ  تو  اسی معصوم بچی سے جینے کا حق چھین لیتا ہے ۔وراثتی حق تلفی کی بھینٹ چڑھنے والی کتنی ہی بیٹیاں جیتے جی مر جاتی ہیں ۔باپ اپنی کمائی سے بیٹوں کو تو اپنی زندگی میں جائدا د خرید کر دیتا ہےتاکہ بعد میں بیٹیوں یا بچیوں کو حصہ نہ دینا پڑےبلکہ اپنی وارثتی جائداد بھی زندگی میں ہی ان کے نام کر دیتا ہے ۔مقصد صرف بیٹیوں کو وراثت سے محروم رکھنا ہوتا ہے  ۔اپنا جائنٹ اکاونٹ بیتے کے ساتھ رکھتا ہے بیٹی کے ساتھ نہیں رکھتا تاکہ بعد میں مسئلہ نہ بنے ۔وارثتی  حق تلفی  کا یہ زہر نہ جانے کتنی ہی بیٹیوں کو جیتے جی مار چکا ہے ۔سوچیں  جب عزت اور غیرت کی وارث تو بیٹی ہے لیکن دولت اور وارثت بیٹوں کا حق کیسے ہو سکتا ہے ؟  آ خر ہماری یہ معاشرتی خواہش اولاد کے بارۓ میں یکساں سوچ کیوں نہیں رکھتی ؟

یہ سب کچھ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہے ۔ایسے واقعات کی ایک طویل تاریخ ہے ۔ہمارا معاشرتی المیہ یہ ہے کہ ہم ایسے سانحات اور حادثات  پر شدید رد عمل تو ظاہر کرتے ہیں لیکن بہت جلد اسے بھول  بھی جاتے ہیں ۔ہر واقعہ  کے پیچھے چھپے  ذمہ دار طاقتور لوگ مختلف طریقوں  اور سازشوں سے شکوک کی دھندمیں اسے گم کر دیتے ہیں یہاں تک کہ پھر کوئی نیا واقعہ ہمارے زخم تازہ کر دیتا ہے ۔کیا یہ واقعہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ایسی ہی کسی دھند میں گم ہو جاۓ گا ؟اور شاید ہم سب بھی شریک جرم ہو کر رہ جائیں گے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.