زندوں سے بیر مردوں سے پیار

ریحانہ باجوہ

5

ہمارے معاشرے میں پیدا ہونے والی برائیاں اور خرابیاں حقیقت کو جھٹلایا جاتا ہے اور ایک زندہ انسان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ایک لڑکی جس کی ڈیوس ہو جاتی ہے بیوہ ہو جاتی ہے اس کے ماں باپ کی ڈیتھ ہو جاتی ہے وہ بالکل بے اسرا اور بے سہارا ہو جاتی ہے اس کی پراپرٹی بھی ہوتی ہے لیکن اس کے پاس اتنی ہمت اور جرات نہیں ہوتی کہ وہ اپنی پراپرٹی کو سیل کر لیں کسی کی اولاد اس کا سہارا ہوتا ہے کسی کا کوئی نہ کوئی رشتہ اس کا سہارا ہوتا ہے لیکن ایک ایسی بے اسرا اور بے سہارا خاتون ہو کہ جسکی پراپرٹی بھی ہے اسکے نام وہ پراپرٹی کوئی خریدتا بھی نہیں ہے اور ناہی کوئی اس کو خریدنے دیتا ہے تو اس وقت ہم ایک ایسے معاشرے میں جنم لے رہے ہیں زندہ ہیں جس میں بالکل بھی انسانیت نہیں ہے ایک زندہ انسان ٹھوکریں کھاتا ہوا بے سہاروں کی طرح دربدر لوگوں کے گھروں میں رہتاھے لیکن اس کے رہنے کے لیے اس کے پاس جگہ نہیں ہے جبکہ اس کی زمین اس کی پراپرٹی بھی ہے اس کے پاس ہے کہ وہ اس کو سیل کر کے اپنے رہنے کے لیے گھر بنا سکے لیکن جب بھی وہ اس کو سیل کرنے کی بات کرتی ہے تو ارد گرد کے لوگ اس کو کہتے ہیں کل کو تم نے مرنا ہےکو ن تیرا جنازہ لے کے جاےگاوہ اپنی موت کے صرف ایک دن کی لاش کو کندھے پہ اٹھانے کے لیے وہ خاتون ساری زندگی دھکے کھاتی رہتی ہے کہ اس کے بھائیوں کے بچے یا بھائی کوئی نہ کوئی اس کا سہارا بنے گا تو اس کی میت کو دفنائے گا صرف اس چیز کے لیے وہ اس وقت اتنی پریشان ہے کہ اس کا کچھ بھی نہیں ہے صرف اس کے پاس تعلیم اور پراپرٹی ہے اس کو سیل کرنا چاہتی ھے اسکے بھائی ناخود خریدتے ہیں اور نا سیل کرنے دیتے اور نہ خود خریدتے ہیں اور نہ ہی رہنے کے لیے کوئی جگہ ہے اور جب وہ کسی تھرڈ پرسن سے کہتی ہے خریدنے تو وہ اُسے اگے سے یہ کہانیاں سناتے ہیں کل مرنا ہے اس عورت کو سمجھ نہیں اتی کہ وہ کیا کرے ایک دن کے لیئا اپنا جنازہ اٹھوانے کے لیے ساری زندگی بے سکونی میں گزار دی جا تی ہے کہ اس کے رشتےدار نہ چھوڑ دیں لیکن ایسے بھی ہوتا ہےکہ جن کووہ اپنا رشتہ کہتی ہے وہ تو اس کو اپنا رشتےدار حی نہیں سمجھتے اس سے زیادہ بے بسی کیا ہو سکتی ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.