عصرِحاضر کو سائنسی ترقی میں اوجِ کمال کا دور تصور کیا جاتا ہے۔ نت نئی ایجادات اور تحقیقات نے کئی ناممکنات کو ممکن کر دکھایا ہے۔ پرانے نظریات دم توڑ رہے ہیں اور ہر عمل کو سائنسی بنیادوں پر پرکھا و رواج دیا جا رہا ہے۔ اسی تناظر میں کزن میرج کو بھی مضر تصور کیا جاتا ہے۔
اس موضوع پر کچھ عرصہ سے دو مختلف قسم کے نظریات پرورش پا رہے ہیں۔ ایک نظریہ کزن میرج کے مخالفین کا ہے اور دوسرا اس کے حامیوں پر مشتمل ہے۔ کزن میرج کے مخالفین سائنسی منطق سے ثابت کرتے ہیں کہ یہ اگلی نسل میں کئی جینیاتی مسائل اور بیماریوں کی منتقلی کا سبب بنتی ہے جبکہ حامی طبقہ مذہبی دلائل سے قریبی رشتوں میں شادی کو بےضرر اور تقریباََ لازمی سمجھتا ہے۔ میں نے دونوں قسم کے نظریات کا بغور مطالعہ کیا تو مجھے دونوں میں کچھ باتیں درست اور کچھ غلط نظر آئیں۔ دراصل یہ مخالفت یا حمایت کی بات نہیں بلکہ دونوں طبقات کے اپنے اپنے ایجنڈے ہیں جن پر وہ ساری دنیا کو چلانا چاہتے ہیں۔ کزن میرج کے مخالفین کا ایجنڈا نسبتاًََ زیادہ قابل اصلاح ہے البتہ حامیوں کو بھی شریعت اس پر مکمل عمل درآمد کا نہیں کہتی۔
مشاہدہ بتاتا ہے کہ نہ تو کزن میرج یعنی خونی رشتوں میں شادی کے مخالفین کا اصل مسئلہ بیماریوں کی روک تھام ہے اور نہ اس کے حامی مکمل مذہبی روح کو اجاگر کرتے ہیں۔ مغربی دنیا اور اس کے حامی خیالات پر مشتمل طبقہ کچھ حقائق کا سہارا لے کر ہمارے مضبوط خاندانی نظام کو توڑنے کے درپے ہے اور مشرقی روایات پسند طبقہ مذہب کا سہارا لیکر اپنی بہت سی آسانیوں کے لیے اس کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کا حصہ بنے ہوئے ہے۔
مغرب یعنی یہودیت و عیسائیت اور ان کے حامیوں یعنی بدھ مت و ہندو مت وغیرہ میں کزن کو سگے بھائی بہن جیسا تصور کیا جاتا ہے اس لیے ان میں کزن میرج ممنوع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا اصل مسئلہ بیماریوں کی روک تھام سے زیادہ اپنے مذہبی عقائد و نظریات سے جڑا ہے۔
دوسری طرف اسلام وہ واحد بڑا مذہب ہے کہ جس میں کزن میرج کی اجازت ہے۔ البتہ یہ بات زہن میں ضرور رکھنی چاہیے کہ اجازت کا مطلب “لازم” قطعاََ نہیں ہے۔اس لیے مسلمانوں میں شادیاں قریب، دور اور غیروں سب میں کی جاتی ہیں۔ آپس میں شادیوں سے اگر کسی جوڑے میں نسل در نسل چلنے والی بیماریاں منتقل ہونے کا خدشہ موجود ہو یا دل نہ چاہے تو زرا دور کے رشتوں اور غیروں میں بھی شادی کی اجازت ہے۔ میری نظر میں یہ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں کہ جس کی بنیاد پر اک طوفان کھڑا کیا جائے اور دیگر حل نکالنے کی بجائے اک مضبوط خاندانی نظام کو توڑنے کی سازش رچائی جائے۔ اگر دونوں جانب متوازن سوچ رکھ کر نظریات تشکیل دیے جائیں تو اس میں ساری انسانیت کا بھلا ہے۔ اگر آپس کی شادیوں سے صحت کے مسائل لازمی پیدا ہوتے ہیں تو پھر ہم جنس پرستی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور پیچیدگیوں سے صرف نظر کرنا کھلا ترین تضاد ہے۔ میں نے مغربی یا ان کے ہم خیال میڈیا میں ہم جنس پرستی کی کبھی اس قدر مخالفت نہیں دیکھی جتنی کزن میرج کی ہوتی ہے۔ ہم جنس پرستی اور فحاشی کے اڈوں میں تو انسان جنس بن جاتا ہے۔ وہاں ایڈز لگ جاتی ہے مگر اس کے سدباب سے زیادہ کزن میرج پر پابندی کی سوچ ناانصافی اور ظلم کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اگر بیماریوں کی روک تھام مقصد ہوتا تو مغربی ممالک کا میڈیا، تنظیمیں اور صحت کے ادارے ہم جنس پرستی اور فحاشی کے اڈوں کے خلاف بھی ایسی ہی تحریکیں چلاتے۔ میرا خیال ہے کہ مغرب اور اس کے حامی خونی رشتوں میں شادی سے متعلقہ خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں ورنہ سائنسی ترقی کے باعث کزن میرج تو پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ہوچکی ہے۔
بےشک کزن میرج سے کسی خاندانی بیماری یا جینیاتی مسئلے کے آگے منتقل ہونے کا چانس ضرور ہوتا ہے لیکن اس کا صرف اور صرف 4 سے 5 فیصد امکان ہے اور اس کو بھی بروقت ٹیسٹوں اور ادویات سے ختم یا کم کیا جاسکتا ہے۔ اگر خاندان میں نسلوں سے کوئی بیماری چلی آتی ہو اور ادویات سے درست علاج نہ ہونے کا شبہ ہو تو غیر کزن میں بھی شادی کی قطعاََ ممانعت نہیں ہے۔
اگر کزن میرج سے خاندانی بیماریوں کی صرف 5 فیصد منتقلی کو دیکھیں تو دوسری جانب اس پر پابندی سے شادیوں کی تعداد میں کمی بھی کئی نفسیاتی بیماریوں اور گناہوں کا سبب بنتی ہے۔ دنیا میں ایسے نفسیاتی عوارض کا شکار لوگ کل آبادی کا 13 فیصد ہیں جو 5 فیصد سے زیادہ بڑی تعداد ہے۔غیروں میں شادی خاندانی بیماری کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ کا سبب ضرور بنتی ہے لیکن اس طرح دوسرے خاندان سے بھی کئی بیماریاں منتقل ہونے کا امکان ضرور موجود رہتا ہوگا۔ یہ بات میں اپنے زاتی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔میرے اپنے خاندان میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں نسل در نسل کزن میرج کا کوئی نقصان نظر نہیں آرہا اور کہیں کزن سے باہر شادی کے باوجود اولاد زہنی یا جسمانی معذور پیدا ہوئی۔
اس سلسلے میں میرے ایک جاننے والے جن کے خاندان میں عموماََ کزن میرج کا رواج ہے نے اپنے خاندان کے 350 گھروں کا ڈیٹا اکٹھا کیا تو یہ نتیجہ سامنے آیا کہ 10 گھروں کے بچے جن کی شادیاں غیر کزنز یا فیملی سے باہر تھیں کے بچے ڈس ایبل تھے اور 10 گھروں میں اولاد ہی نہ تھی۔ اس کے مقابلے میں قریبی رشتوں میں شادی شدہ گھر کسی بھی ایسے مسئلے میں مبتلا نہ تھے۔
میری مندرجہ بالا مثالوں کا مقصد قطعاََ سائنسی نظریات کی مخالفت یا روایتی نظریات کی حمایت نہیں۔ صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ حرف آخر کوئی بات نہیں۔ دونوں جانب اگر چند مضرات ہیں تو نوافع بھی موجود ہیں۔البتہ کزن میرج یا دیگر قریبی رشتوں میں شادی سے جو مضبوط خاندانی نظام رواج پاتا ہے