شہادت بہادروں کا اعزاز

50

تحریر: سیدہ سعدیہ عنبرؔ الجیلانی

19 مئی 2024 کی رات میڈیا پہ اچانک ایرانی صدر کی اہم ساتھیوں سمیت ہیلی کاپٹر حادثے کی دل سوز بریکنگ نیوز چلنے لگی۔ جس نے ہر اہل دل کو “سب خیریت ” کی دعا مانگنے پہ مجبور کر دیا۔ ایک فکر و غم کی لہر تھی۔ جو ہر سمت پھیل گئی ۔ ہر صاحب ء دل اور ہر ملک، ایرانی صدر محترم ابراہیم رئیسی کی بخریت واپسی کے لئیے دعا گو تھا۔
پاکستان سے تو خیر ایران کا تعلق کچھ اور بھی گہرا ہے۔ انڈیا و افغانستان سے لے کر سعودیہ و ترکی تک ہر طرف سے دعائیہ بیانات جاری ہو رہے تھے۔ ایران کے روحانی پیشواء و سپریم لیڈر محترم سید آیت اللہ علی خامنہ ای صاحب نے فورا انتظامی میٹنگ بلائی اور اپنے عوام کو پر سکون رہنے اور دعا کرنے کی تلقین کی۔ رات دو بجے تک کوئی خاص پیش رفت سامنے نہ آ سکی ۔

مگر 20 مئی 2024 کی صبح ایرانی صدر کی اپنے اہم رفقاء سمیت شہادت کی خبر نے ہر آنکھ کو پرنم اور ہر دل کو رنجیدہ کر دیا۔ کہ ایرانی صدر محترم رئیسی حالیہ دورہ ء پاکستان 2024 کے بعد سے پاکستان میں بھی ایک ہر دل عزیز شخصیت بن چکے تھے۔ اس الم ناک حادثے پہ ایران میں پانچ روز اور پاکستان میں ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ۔

ایرانی میڈیا کے مطابق یہ حادثہ اتوار کو آذربائجان میں کسی ڈیم کی افتتاحی تقریب سے واپسی پہ ایران کے شہر تبریز کے قریب پہاڑی علاقے میں پیش آیا، جہاں خراب موسم، دھند اور بارش کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کی تلاش میں مشکلات کا سامنا رہا۔

اس آپریشن میں تقریبآ 73 ریسکیو ٹیموں نے اپنا کردار ادا کرنے کی سر توڑ کوششیں کیں۔ مگر خراب موسم کی مشکلات آڑے رہیں۔ اس افسوس ناک حادثے کا شکار ہونے والے ہیلی کاپٹر میں ایرانی صدر رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان، ایران کے مشرقی آذربائیجان صوبے کے گورنر ملک رحمتی اور مشرقی آذربائیجان میں ایران کے سپریم لیڈر سید آیت اللہ علی خامنہ ای کے نمائندے آیت اللہ محمد علی آل ہاشم سوار تھے۔

یاد رہے۔ کہ اسرائیل کی مسلسل جارحیت سے تنگ آ کر 13 اپریل 2024 کو ایران نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دفاع میں اسرائیل پہ مزائل فائر کئے تھے۔ جو کہ اسرائیل کے دفاعی نظام کے لئیے ایک دھچکا ثابت ہوا تھا ۔ اور اسرائیل نے اس پہ ایران کو جواب دینے کی کھل کر انٹرنیشنل میڈیا پہ دھمکی دی تھی۔

انہی حالات کی سنگینی و کشیدگی میں ایرانی صدر محترم رئیسی نے 22 اپریل 2024 کو پاکستان کا ایک اہم و خوش گوار دورہ کیا ۔ جس میں پاکستان کی اہم شخصیات ،صدر ، وزیراعظم اور آرمی چیف عاصم منیر سے ملاقاتیں کیں۔ اور دو طرفہ معاشی و سکیورٹی تعلقات کو مظبوط تر کرنے کا عزم کیا گیا۔ مزید توانائی کے اہم ترین پروجیکٹ سوئی گیس پائپ لائن منصوبے کو زیر بحث لایا گیا۔ جو کہ امریکہ کے لئیے کچھ زیادہ پسندیدہ نہیں رہا کبھی بھی۔

متحمل شخصیت کے مالک 63 سالہ صدر رئیسی کا پورا نام سید ابراہیم رئیس الساداتی المعروف ابراہیم رئیسی تھا۔ ابراہیم رئیسی 1960ء میں ایران کے شہر مشہد میں پیدا ہوئے۔ آپ نے قم شہر کے ایک مدرسے سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ اور شہید مطھری یونیورسٹی تہران سے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ آپ مولا امام رضا علیہ السلام کے مزار پاک کے بڑے امام جناب احمد علم الہدی کے داماد تھے۔

رئیسی نے 1979ء میں آنے والے انقلاب ء ایران میں فرنٹ لائن پہ حصہ لیا۔ اور انقلاب کے بعد 80ء کی دہائی میں عدلیہ کے اہم عہدے پر بطور پراسیکیوٹر ، 1994ء میں بطور جنرل پراسیکیوٹر تہران نامزدی ہوئی۔
2006ء میں پہلی بار صوبہ خراسان سے انتخابات میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔

رئیسی ایران کی سب سے اہم اور امیر ترین مذہبی تنظیموں میں سے ایک ’آستان قدس رضوی‘ کے نگہبان بھی رہے۔ اور 2016ء سے 2019ء تک مشہد میں مولا امام رضا علیہ السلام کے مزار شریف کے نگران رہے۔

2017ء میں پہلی بار صدارتی امیدوار کے طور پہ الیکشن میں حصہ لیا اور تقریباً ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ووٹ حاصل کر کے مبصرین کو حیران کر دیا۔ مگر اپنے ساتھی عالم حسن روحانی سے شکست کا سامنا کیا۔ اور 38٪ ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پہ رہے۔

بعد ازاں 2019 میں ایران کے سپریم لیڈر سید آیت اللہ علی خامنہ ای نے اُنھیں عدلیہ کے سربراہ کے طاقتور عہدے پر نامزد کیا۔ اور اس سے اگلے ہی ہفتے وہ ماہرین کی اسمبلی کے ڈپٹی چیئرمین کے طور پر بھی منتخب ہوئے۔ جو کہ 88 رکنی علماء کا ادارہ ہے۔ جو اگلے سپریم لیڈر کے انتخاب کے لیے ذمہ دار ہے۔ بطور چیف جسٹس رئیسی نے کئی اہم قانونی اصلاحات جاری کیں۔

19 جون 2021ء ایرانی تاریخ کے کم ترین ٹرن آؤٹ کے باوجود ریئسی بہت سی مثبت تبدیلیوں کے منشور کے ساتھ ایران کے آٹھویں منتخب ہوئے۔ اور تاشہادت 19 مئی 2024 ء تک صدر رہے۔ ریئسی کو ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ اور ان کے جانشین کے طور پہ بھی جانے جاتے تھے۔ مسلم امہ کی ایک جرات مند شخصیت جو جدا ہو گئی۔

سوال یہ ہے ۔ کہ ایسے حادثات صرف محب ء وطن اور مخلص لیڈروں اور سیاست دانوں کو ہی کیوں پیش آتے ہیں۔ یا تو یہ قید و بند کی صوبتیں برادشت کرتے ہیں۔ یا ان چادثات کی نذر ہو جاتے ہیں۔۔۔کیا یہ بھی محض اک قدرتی حادثہ ہے ۔ یا کوئی سازش یا کسی دھمکی کو نتیجہ!!!

بہرحال جو بھی ہے۔ مسلم امہ کے خواب ء غفلت سے جاگنے کا وقت ہے۔
شہادت بہادروں کا اعزاز ہے۔ اللہ کریم ایرانی صدر محترم اور ان کے ساتھیوں کے درجات بلند فرمائیں ۔ آمین
ہم ایرانی عوام کے اس دکھ میں برابر شریک ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.