شہباز وزیر اعظم ،زرداری صدر :دو بڑی جماعتوں کا ڈیڈ لاک ختم

29

ایڈیٹر: رانا فہد صفدر

مرکز میں حکومت سازی کا منصوبہ تیار ہوگیا ہے اور ملک کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان ڈیڈ لاک ختم ہونے سے بہتری کے آثار نمایاں ہوئے ہیں ۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اقتدار کی شراکت پر بھی اتفاق کرتے ہوئے حکومت سازی کے عمل کو بخوبی آگے بڑھایا ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے وفاق میں مل کر حکومت بنانے کا اعلان کیا ہے۔اسلام آباد میں شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف سمیت
دیگر راہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مذاکرات کے لیے قائم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی کمیٹیوں نے بڑی محنت کے بعد اپنا کام مکمل کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اب آپ کو بتا سکتا ہوں کہ اب پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے نمبرز پورے ہو چکے ہیں اور ہم حکومت سازی پر عملدرآمد کریں گے
ہم حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔بلاول نے کہا کہ جو جماعت سنی اتحاد کونسل کے نام سے قومی اسمبلی میں موجود ہے، ان کے پاس حکومت بنانے کے نمبرز موجود نہیں تھے
اور اب پاکستان کو اس بحران سے نکالنے اور ہمارے معاشرے میں پھیلی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی مل کر حکومت بنانے جا رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ شہباز شریف وزیر اعظم اور
آصف علی زرداری صدر مملکت کے عہدے کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے مشترکہ امیدوار ہوں گے۔
ہمیں امید ہے کہ جلد از جلد شہباز شریف ایک بار پھر ملک کے وزیراعظم بنیں گے
اور ہم سب کی دعا یہ ہے کہ حکومت کامیاب ہو اور جو ہمارے اندرونی مسائل،
بیرون ملک جو ہمارے مسائل ہیں
پاکستانیوں کو معیشت میں درپیش مشکلات کا حل نکالنے کے لیے اللہ تعالیٰ ہمارا ساتھ دے
اور ہم کامیاب ہو جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے الیکشن کے بعد جو صدر پاکستان کا الیکشن ہونے جا رہا ہے
تو اس میں بھی ہم مسلم لیگ(ن) کے شکر گزار ہیں کہ وہ اپکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار
صدر زرداری کی حمایت کر رہے ہیں اور صدر پاکستان کے لیے ہمارے مشترکہ امیدوار
صدر آصف علی زرداری ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مل کر مسائل کا مقابلہ کریں گے اور ہماری پوری کوشش ہو گی کہ
عوام کی جو ہم سے امیدیں ہیں، ہم اس کے مطابق کارکردگی دکھا سکیں،
میں آپ سب کا بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم کا شکر گزار ہوں۔
دوسری طرف پی ٹی آئی سمیت مختلف جماعتوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنے کا عندیہ دیا گیا ہے ۔
سیکریٹری جنرل جی ڈی اے ڈاکٹر صفدر علی عباسی نے مورو دھرنے کے شرکا سے
خطاب کرتے ہوئے 26 فروری کو بدین میں دھرنے کا اعلان کردیا، ان کا کہنا تھا
کہ 23 فروری کو جی ڈی اے کا اہم اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہوسکتا ہے سندھ اسمبلی کا اجلاس 12 گھنٹے کے نوٹس پر ہو، سندھ اسمبلی کا اجلاس
جیسے ہی کال ہو اسی وقت ہم سب اپنے گھروں سے نکل کر اسمبلی پہنچ جائیں گے اور اجلاس کے روز
اسمبلی کا گھیراؤ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیر پگارا نے اپنی پریس کانفرنس اور جامشورو جلسے میں جو باتیں کی ہیں
وہ سمجھنے کی ضرورت ہے، پیر پگارا کے اس پیغام کو سمجھیں، پیر پگاڑا نے کہا تھا
کہ 3 مرتبہ ان کے صبر کو آزمایا گیا ہے۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ جی ڈی اے کے ارکان اسمبلی کو فنڈز نہیں دیے ،کمیٹیوں میں بھی شامل نہیں کیا گیا،
اب اسمبلی سے ہمیں نکال دیا اور سڑکوں پر لا کر کھڑا کر دیا ہے، مگر یہ جی ڈی اے والے بردبار لوگ ہیں،
آپ نے ہمیں لڑائی کا چیلنج دیا ہے تو یہ جنگ پیر پگارا کی قیادت میں جاری ہے اور رہے گی۔
صفدر عباسی نے دریافت کیا کہ یہ انتظامیہ کیا چاہتی ہے؟
مرتضی خان جتوئی پر جھوٹے کیس بنائے گئے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مرتضی خان جتوئی ڈر جائے گا؟
نہیں یہ آپ کی بھول ہے۔
ادھر پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی جانب سے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے الزامات
پر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے ۔
ان حالات میں جب پاکستان میں حالیہ الیکشن کے بعد حکومت سازی کے عمل میں تعطل کے بعد
دو بڑی جماعتوں کے شراکت اقتدار کے ساتھ گتھیاں سلجھ رہی ہیں تو
احتجاج کی سیاست سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوگا ۔
ملکی حالات اب کسی طور بھی کسی نئی احتجاجی تحریک کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔
ملک کے گوناں گوں مسائل سے نکالنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کے استحکام کی خاطر
اپنا مثبت کردار نبھانا ہوگا ۔پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار نبھانے کے لئے جلد فیصلہ کرنا ہوگا
حکومت بنانے کے لئے اس کے پاس وقت تھا مگر پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے بروقت فیصلہ کر کے
اب دیگر جماعتوں کے اتحاد سے بھی حکومت بنانا مشکل ہوگیا ہے
اس لئے بہترین آپشن اب ان کے لئے ایوان میں اپوزیشن کے کردار کا ہی بچا ہے
انہیں اب مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے اپنا پارلیمانی کردار ادا کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں آنا ہوگا ۔
ہم خیال جماعتوں سے ہاتھ ملانا ہوگا ۔
تاکہ بھرپور اپوزیشن کے کردار سے ملکی نظام کو بہتری کی جانب گامزن کیا جاسکے ۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان ہونے والے شراکت اقتدار کے معاہدے کو بھی
خلوص نیت کے ساتھ نبھانے کی ضرورت ہوگی
تاکہ ایوان میں عوام کو ریلیف دینے کے لئے یکسوئی سے کام ہوسکے ۔

22/02/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-16-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.