چند سطریں

عالیہ خان alyiakhan875@gmail.com

4

‘”ہم تماشائی ”
گزشتہ دنوں رائےونڈ کی شام ایک المناک سانحے کی گواہ بنی۔ دو معصوم بھائی، جو ابھی زندگی کے خواب بُننے اور خوشیاں سمیٹنے کے دنوں میں تھے، معمولی جھگڑے کی بھینٹ چڑھ کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کے جسم لہو میں نہائے اور ان کی آخری سانسیں انسانی بربریت پر نوحہ کناں رہیں، مگر ہم سب ایک بے حس معاشرہ محض تماشائی بنے کھڑے رہے۔ یہ سانحہ صرف دو نوجوانوں کی موت نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی ضمیر کی موت ہے۔ ایک بار پھر ہم نے اپنی ہی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے کھو دیا مگر ہمارے دلوں میں لرزہ تک پیدا نہ ہوا۔ہمارا معاشرہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے بجائے لوگ موبائل نکال کر ویڈیوز بنانے لگتے ہیں۔ رائےونڈ کے واقعے میں بھی یہی ہوا۔ دو بھائی مدد کے منتظر تھے، لیکن اردگرد کھڑے لوگوں کی آنکھوں میں درد نہیں بلکہ تجسس تھا۔ قرآن مجید میں حکم ہے: “نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی میں مدد نہ کرو” (المائدہ: 2)۔ مگر افسوس ہم نے الٹی راہ اختیار کر لی ہے۔ نیکی میں پیچھے اور ظلم میں خاموشی یا شراکت داری ہمارا معمول بن گیا ہے۔عدم برداشت اور غصے کا زہر ہمارے گھروں اور گلیوں میں سرایت کر چکا ہے جبکہ صبر و حلم کی خوشبو مدہم ہو گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ پہاڑ بن جاتا ہے اور برداشت صحرا کے نایاب پانی کی طرح غائب ہو چکی ہے۔ انہی رویوں نے ان دو بھائیوں کی جان لے لی کیونکہ ہمارے اندر وہ ظرف باقی نہیں رہا جو اختلاف کو مسکراہٹ سے سہہ سکے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: “طاقتور وہ نہیں جو کسی کو زمین پر گرا دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو پا لے” (صحیح بخاری)۔ کاش یہ حدیث ہمارے گھروں کی دیواروں پر لکھی اور دلوں پر نقش ہوتی۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ آج حادثے بھی تفریح کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ انسانیت تڑپ رہی ہو اور ہم کلپس وائرل کر کے لائکس اور ویوز سمیٹنے میں لگے ہوں۔ یہ رویہ نہ صرف لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکتا ہے بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کو بھی آشکار کرتا ہے۔ قرآن پاک فرماتا ہے: “جس نے ایک جان کو قتل کیا گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو بچایا گویا اس نے ساری انسانیت کو بچایا” (المائدہ: 32)۔ یہ آیت ہمیں جھنجھوڑتی ہے کہ ہم نے کتنی انسانیت قتل کی اور کتنی جانیں بچا سکتے تھے مگر بچائیں نہیں۔سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کبھی ہمارا معاشرہ ہمدردی اور بھائی چارے کی مثال ہوا کرتا تھا۔ محلے ایک خاندان کی مانند تھے، سب کا دکھ سب کا دکھ سمجھا جاتا تھا۔ مگر آج ہر شخص اپنی ذات کے خول میں قید ہے۔ نہ کسی کی آنکھ کا آنسو ہمیں دکھائی دیتا ہے، نہ زمین پر گرتا خون ہمیں جھنجھوڑتا ہے۔ کیا یہ دو بھائی ہمیں جگانے کے لیے کافی ہیں؟ کیا یہ سانحہ ہماری مردہ انسانیت کو زندہ کر پائے گا؟ یا یہ بھی خبروں کی سرخی بن کر وقت کے دھندلکوں میں گم ہو جائے گا؟اسلام ہمیں صبر، برداشت اور رواداری سکھاتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ تعلیم دینی ہوگی کہ غصہ طاقت نہیں بلکہ کمزوری ہے، انتقام بہادری نہیں بلکہ بزدلی ہے۔ اصل بہادری دوسروں کی جان بچانے اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے میں ہے۔ ریاست اور قانون کی بھی ذمہ داری ہے کہ ایسے مجرموں کو عبرت ناک سزا دے۔ جب تک ظالم کو انجام تک نہیں پہنچایا جائے گا اور مظلوم کو فوری انصاف نہیں ملے گا، یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ عوامی شعور بیدار کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ہم اجتماعی طور پر ظلم کے خلاف کھڑے ہوں۔ہمیں اپنی نئی نسل کو برداشت، محبت اور رحمت کا درس دینا ہوگا۔ ظلم کے سامنے خاموش رہنا دراصل ظلم کو بڑھاوا دینا ہے۔ یہ سانحہ صرف ایک خبر نہیں بلکہ ہمارے وجود پر لگنے والا وہ زخم ہے جو بار بار یاد دلاتا رہے گا کہ اگر ہم نے رویے نہ بدلے اور اسلامی تعلیمات کو عملی زندگی میں نہ اپنایا تو کل ہر گھر سے ایسی چیخیں اٹھیں گی جنہیں کوئی سننے والا نہ ہوگا۔آئیں! آج عہد کریں کہ ہم ظلم کے تماشائی نہیں بلکہ مظلوم کے ساتھی بنیں گے۔ حادثے کے وقت ویڈیو بنانے کے بجائے جان بچانے کو ترجیح دیں گے۔ ہم برداشت کو اپنی پہچان بنائیں گے اور اسلام کے امن و رحمت کے پیغام کو اپنے کردار سے دنیا کے سامنے رکھیں گے۔ یہی ان بھائیوں کی قربانی کو سچا خراجِ عقیدت ہوگا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.