بادلوں کی اوٹ سے روشنیوں کا چاند

29

جب انسان اقتدار میں آتا ھے تب وہ بھت کچھ سوچتا ھے اور بھت کچھ کرتا ھے اور بھت کچھ کرنے کی کوشش کرتا ھے کچھ وہ کر پاتا ھے کچھ نہ چاھتے ھوئے بھی رہ جاتا ھے
خیر یہ رسم دنیا ھے کہ سب چیزیں پوری نہیں ھوپاتی دنیا ہے یہاں ہر چیز مل نہیں پاتی اور ہر خواہش پوری نہیں ہوتی ایک حساب سے ہی انسان چلے تو سفر اور اس کی منزلوں کا ملنا ممکن ہو جاتا ہے
کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ انسانوں کے لیے میں وہ کچھ کر جاؤں کہ تاریخ مجھے ہمیشہ کے لیے یاد رکھیں اور اس کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے
اپنے دن رات کا چین سکون ان کی نظر کرنا پڑتا ہے انسانیت کی خدمت بظاہر تو بہت اسان نظر اتی ہے لیکن اس سے پورا کرنے کے لیے قدم قدم پر خارزار پڑے ہیں
کیونکہ جب اپ اچھائی کے کام کے لیے اگے بڑھیں گے تو بدی کی طاقتیں اپ کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گی تو ایسا ہی اقتدار میں انے والے حکمرانوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے
کہ اگر وہ کچھ کام قوم اور ملک کے لیے کرنا چاہیں بھی تو جس کا فائدہ غریب مستحق سفید کالر اپر کلاس حتی الواسع کے ملک کے ہر شہری کو ہوتا ہو وہ بدی کی طاقتیں یہ نہیں چاہتی کہ یہ کام ہو جس سے عوام فائدہ اٹھائے عوام کی زندگی میں اسانی پیدا ہو تو اس طرح کچھ کام جو ہیں وہ رہ جاتے ہیں کیونکہ شروع سے لے کے اج تک شر اور خیر کا تصادم رہا ہے اور جیت ہمیشہ خیر کی ہوئی ہے دیر آئد درست ائد پر اس کے نتائج اچھے ملتے ہیں شروع سے لے کر اج تک وقت الحال تک جس طرح کی حکومتیں بھی آئیں جس طرح کا بھی نظام ایا لیکن کچھ حکمرانوں نے بلکہ زیادہ حکمرانوں نے اپنی عوام اپنی رعایا کے لیے سوچا لیکن انہی کے زیر سایہ کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں کہ جو نہیں چاہتے کہ رعایا کو سہولتیں ملیں رعایا ہماری ہی طرف دیکھے اور ھمیشہ کے لئے ھماری غلام رھے اس رسم رواج کو اقتدار میں انے والے اچھے حکمران ختم کرنا چاہتے ہیں اور ختم ہو بھی سکتا ہے کیونکہ نہ تو ہمارا سلام اس چیز کی اجازت دیتا ہے تو نہ ہی انسان ہونے کے ناطے یہ زیب دیتا ہے کہ اگر اپ کے پاس انسانوں کی سہولت کے لیے کچھ وسائل ہیں تو ان کو اپ دبا کر رکھیں بلکہ انہی وسائل سے اپنی رعایا کو زندگی کی وہ سہولتیں دیں جس کی وہ حقدار ہے تو ایسا ہی ہمارے پاکستان میں بھی انسانیت کی خدمت کرنے والے عوامی رہنما عوامی حکمران صاحب اقتدار ائے اور اتے بھی رہیں گے کیونکہ یہ سلسلہ تو جب تک دنیا قائم ہے رہے گا کہ انسان ہی انسان کا سہولت کار ہے کیونکہ جب ہم کرسی پر بیٹھتے ہیں تو اس وقت ہماری ذمہ داریاں ہمارے فرض بڑھ جاتے ہیں اور جن کو پورا کرنا اخلاقی طور پر شرعی طور پر ضرور ہو جاتا ہے پرانے زمانوں میں اور پرانی حکومتوں میں وعدے تو بہت ہوئے کچھ کی تکمیل ہوئی کچھ رہ گئے تو اب ہمیں چاہیے کہ دنیا بہت اگے جا چکی ہے ہمیں بھی اپنے تمام تر وسائل استعمال کرتے ہوئے اگے کی طرف بڑھنا ہے قوم اور ملک کے لیے کچھ کرنا ہے تو اب وعدہ نہیں رعایا کام چاہتی ہے کیونکہ وعدوں کے وقت گزر گئے وعدوں کی دنیا ماضی کا حصہ بن گئی اب اپ کے انگلیوں کے جنبش کے نیچے دنیا بیٹھی ہے اس کی وجہ جدید علوم جدید ٹیکنالوجی جدید ریسرچ اور اس ریسرچ کے نتیجے میں اج دنیا کہاں کی کہاں پہنچ گئی ہے تو ہمیں بھی چاہیے پھر سرچ میں بہت اگے ائیں تاکہ اس دنیا کے جدید علوم جدید نظام جدید ٹیکنالوجی جدید سہولیات سے فائدہ اٹھا کر پاکستانی قوم اور ملک کو عالم قوم کی ان قوموں کے برابر کھڑا کر دیں جنہوں نے ریسرچ کے ذریعے ایک عالم فتح کیا اور وہ عالم ہے جدید ٹیکنالوجی اور اس سے وابستہ روٹس جن روٹس پر جا کر ہم نے ارننگ کرنی ہے اور ہمیں ان روٹس کا تعین کرنا چاہیے وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کو اور صدر پاکستان اصف علی زرداری کو ان باتوں پر اپنی پوری ٹیم کو اگاہ کریں ان کو ٹاسک دیں کیہ اب ستاروں پر کمند ڈالنے کا وقت ہے اور وہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم ائی ٹی میں کمپیوٹر سائنسز میں ایک دنیا فتح کریں گے۔۔۔

22/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-1-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.