آنکھوں دیکھی کا نوں سنی یکم مئی کی حقیقت

(شاہد بخاری)

4

یوم مئی کا واقعہ جب شکاگو میں پیش آیا تو اس وقت دنیا میں نہ سوویت یونین اوف روس تھی اور نہ ہی دنیا میں کسی سو شلسٹ ملک کا وجود تھا بلکہ یہ المیہ انقلاب روس سے تقریبا 31 سال قبل امریکہ کے ایک صنعتی شہر شکاگو میں پیش آیا تھا، جہاں مزدوروں نے جن مطا لبات پر احتجاجی مظاہرے کیے تھے، وہ اشتراکیت یا
سوشلزم کے نام سے نہ تھے اور نہ ہی اس نوعیت کے نظریات سے ان کا براہ راست کوئی تعلق تھا مگر ہمارے ھاں بعض جماعتیں یوم مئی کا تعلق اشتراکیت سے جوڑ کر اس کی ایک اسلامی ملک میں 1972ء سے ترویج پر نالاں ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ بائیں بازو یا لادینی قوتوں کا بیانیہ ہے۔
تاہم وہ تمام مطالبات جو بائیں بازو کی تنظیمیں کرتی آئی ہیں۔تاریخ کی ستم ظریفی ملاحظہ ھو، آج وہی سارے مطالبات نہ صرف دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں کے منشور کا افتتاحیہ بن گئے ہیں بلکہ جگہ جگہ انہی نعروں کے بینرز اور پوسٹرز ان جما عتوں کی طرف سے بھی سڑکوں و چو راھوں پر لٹکے نظر آتے ہیں لیکن انہیں 22 ویں گریڈ اور پہلے گریڈ کی تنخواہوں میں تفاوت نظر نہیں آتا جو بڑھتا ھی چلا جا رھا ھے۔
جبکہ حضرت ابوبکر اور حضرت علی کے ماھانہ وظائف عام شہری کے برابر تھے۔اس لئے ھمارے عوامی نمائندوں کی ماھانہ تنخواہ عام مزدور کی ماھانہ تنخواہ کے برابر کیوں نھیں ھوسکتی؟؟؟..۔۔ع۔۔۔
نام نبی کا لینے والے الفت سے بیگانے کیوں؟؟؟:
خود مختار بنے بیٹھے ہیں کچھ لوگ یہاں
حال نہیں ہے کوئی یہاں مزدوروں کا
فرق مٹا سکا نہ شاہد ! کوئی بھی یہاں
سرمایہ داروں کا اور مزدوروں کا
دنیا میں جب صنعتی انقلاب آیا تو اس وقت نہ تو محنت کشوں کے لیے اوقات کار کا تعین تھا اور نہ ہی انہیں محنت کے مطابق اجرت دی جاتی تھی۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئیے یہ محنت کش کم تنخواہ پر 16 سے 20 گھنٹے کام کرنے پر مجبور تھے۔ ستم بالائے ستم محنت کا معاوضہ بھی وقت پر ادا نہیں کیا جاتا تھا۔ ہفتہ وار چھٹیوں کا تو کوئی تصور ھی نہ تھا۔جس طرح ہمارے بھٹہ مزدوروں کے ھاں تعطیلات کا کوئی تصور نہیں، وہ غلاموں کی طرح سخت مشقت کے کا موں میں رات دن جتے رہتے ہیں ۔
غریبوں کی قسمت بنانے سے پہلے
اے دنیا کے مالک تو رویا تو ھو گا
اس زمانے میں محنت کشوں پر یہ ظلم بھی ڈ ھایا جاتا تھا کہ اگر وہ کام کے دوران بیمار پڑ جاتے تو علاج معالجے کی قطعا کوئی سہولت تو در کنار، اس حالت میں بھی کام کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ اگر وہ کام کرتے کرتے مر جاتے تو انہیں بغیر کفن کے گڑھوں میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ ظلم کی انتہا تو یہاں تک تھی کہ گڑھوں میں دبانے کا کام بھی مرنے والوں کے رشتہ داروں یا ساتھیوں سے لیا جاتا تھا۔۔ ۔۔۔۔ع۔۔۔۔۔۔۔
تھے تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
اس ظلم و ستم اور جبر و تشدد نے محنت کشوں کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنے لیے ایک ایسا راستہ تلاش کریں جس پر چل کر وہ اپنے مسائل حل کروا سکیں۔ جس طرح ہمارے ملک میں چند خاندانوں کی حکومت ہے اور وہیں دولت کی ریل پیل ہے اور تمام آسائیشات ان کا مقدر بنی ہوئی ہیں جبکہ آبادی کا اکثر حصہ انتہائی بد حالی کا شکار ہے اسی طرح امریکہ میں بھی اس زمانے میں 14 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی دولت صرف نو خاندا نوں کے ہاتھ میں تھی ۔اسی کو دولت کی غیر مساوی تقسیم کہتے ہیں، جسے ختم کرنے کے لیے کار مارکس کے، ہندوستان میں ہم عصر شاہ ولی الللہ نے بہت زور دیا اور سمجھایا کہ اگر دولت کی یہ غیر مساوی تقسیم ختم نہ ہوئی تو مغلیہ سلطنت ختم ہو جائے گی۔ آپ نے دیکھا کہ مغلیہ حکومت کو انگریزوں نے ختم کر کے ان کی دولت سے انگلستان کو بھر دیا ہے وھاں صنعتیں لگیں۔۔۔ع۔۔۔
دولت ھند ظالم فرنگیوں نے بہ تدبیر لوٹ لی
دنیا کی پہلی باقاعدہ مزدور یونین امریکہ کی ریاست فلا ڈلفیا میں1827 میں قائم ہوئی جس نے مزدوروں سے 10 گھنٹے کام لینے کا مطالبہ کیا۔ 1884ء میں امریکی محنت کشوں نے اعلان کیا کہ یکم مئی 1886ء سے آٹھ گھنٹے کا دن قانونی تصور ہوگا یعنی مزدور آٹھ گھنٹے کام کریں گے۔ حکومت ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔سب کی نگاہیں یکم مئی پر جمی ہوئی تھیں ۔با
لآخر یکم مئی 1886 کو ہڑتال کی اپیل نے زبر دست پذیرائی حاصل کی اور امریکہ کے تمام بڑے شہروں اور صنعتی مراکز میں محنت کشوں نے ریلیاں منعقد کیں اور منظم جلوس نکالے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا مظاہرہ شکاگو میں Hay Market کے مقام پر ہوا جس میں تقریبن ایک لاکھ محنت کشوں نے شر کت کی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس روز پورے امریکہ میں کم و بیش چھ لاکھ نفوس نے یکم مئی کے اجتماعات ،جلسوں جلوسوں اور ریلیوں میں شرکت کی چونکہ مزدوروں کے مطا ل بات مانے نہیں گئے تھے، اس لیے ھڑتال جاری رہی ۔تین مئی کے پرامن اجتماع پر پولیس نے فائرنگ کی جس سے چار محنت کش ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ چار مئی کو یوم احتجاج منانے کا فیصلہ کیا گیا جس کو ناکام بنانے کے لیے پو لیس نے جگہ جگہ پکڑ دھکڑ کی۔
استحصالی سرمایہ داروں کے غنڈوں نے پولیس پر ایک دستی بم پھینک دیا، جس کے نتیجے میں سات پولیس والے ھلاک ہو گئے۔ پولیس نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے محنت کشوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ مزدور رہنماؤں پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ انہیں جبر و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سزائے موت دی گئی لیکن تحریک، مطالبات کے منظور ہونے تک چلتی رہی۔
محنت کشوں کو باعزت روٹی کپڑا مکان ادویات اور تعلیم کی سہولیات دینا حکومت کا فرض ہے ۔رشوت خوری کے باعث فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے بجائے فیکٹریاں چلانے کے ہماری حکومت نے ٹی وی چینل چلا دیے ہیں، جن

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.