ہجوم کی تاریخ: فرد سے قوم تک

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

1

 

تاریخ کبھی صرف کاغذوں پر نہیں لکھی جاتی—یہ آنکھوں میں بسی تصویروں، دل میں گونجتی صداؤں اور لبوں سے ادا کیے گئے جملوں میں محفوظ ہوتی ہے۔ کبھی مؤرخ قلم تھام کر بادشاہوں کے قصے لکھتا تھا، کبھی درباری سازشوں کی داستاں رقم کی جاتی تھی، لیکن آج کے مؤرخ کے ہاتھ میں نہ قلم ہے نہ رجسٹر۔ آج کا مؤرخ موبائل فون کا کیمرہ آن کرتا ہے، “لائیو” پر جاتا ہے، ٹویٹ لکھتا ہے، یا فیس بک پر ایک جذباتی پیغام پوسٹ کرتا ہے—اور یوں تاریخ لمحہ بہ لمحہ تخلیق ہو رہی ہے۔

سوشل میڈیا صرف ایک پلیٹ فارم نہیں رہا، بلکہ اب یہ ایک چلتی پھرتی تاریخ گاہ بن چکا ہے، جہاں ہر فرد ایک مؤرخ ہے اور ہر ریکارڈ شدہ منظر ایک تاریخی حوالہ۔ کوئی جلتی سڑک دکھا رہا ہے، کوئی عدالت کے باہر کے ہجوم کو، تو کوئی خاموش آنکھوں کی نمی کو۔ اور یہ سب کچھ صرف دیکھنے کے لیے نہیں، سمجھنے کے لیے ہے۔

لیکن اس نئی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں صداقت کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے۔ جہاں پرانی تاریخ بادشاہوں اور درباریوں کے مفادات سے رنگی جاتی تھی، وہاں نئی تاریخ سیاسی تعصبات، جذباتی فتووں اور لائکس و ویوز کی ہوس سے داغدار ہو رہی ہے۔
جو زبان اختلاف کے لیے ہونی چاہیے تھی، وہ اب دشنام طرازی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ جو سوال فہم بڑھانے کے لیے اٹھنا چاہیے تھا، وہ اب تہمت کی گولی بن چکا ہے۔
ہم کیوں نہیں مانتے کہ ایک ہی واقعے کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں؟ دو نظریات، دو زاویے، دو سچ—یہ سب مل کر مکمل تصویر بناتے ہیں، صرف ایک رخ پر اصرار کرنا انصاف نہیں، بلکہ جہالت ہے۔

سوشل میڈیا پر ہم نے قوم بننے کے بجائے ہجوم بننے کا راستہ اختیار کیا۔ ہر طرف شور ہے، ہر طرف جذبات ہیں، لیکن وہ شعور جو قوموں کو تشکیل دیتا ہے، وہ کہیں دب گیا ہے۔
ہم بھول گئے ہیں کہ تاریخ صرف نعرے اور ہیش ٹیگ سے نہیں بنتی، اس کے لیے دیانت، گہرائی اور ظرف درکار ہوتا ہے۔

آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم سوشل میڈیا کو صرف جذبات کی آماجگاہ نہ بنائیں، بلکہ اسے شعور کی تربیت گاہ بنائیں۔ اختلاف کو دشمنی نہ بنائیں، اور تاریخ کو انتقام کا آلہ نہ بنائیں۔
یہ لمحے، یہ منظر، یہ بیانات—یہ سب کل کے حوالہ جات ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ انہیں سنبھال کر لکھیں، ذمہ داری سے، سچائی کے ساتھ، کیونکہ آنے والا کل انہی کو پڑھ کر ہمیں پہچانے گا۔

ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تاریخ تو بنا لیں، مگر ایک ایسی تاریخ جو قوموں کو جوڑنے کے بجائے مزید توڑ دے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.