بیانات زور و شور سے جاری تھے۔
اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔
جنگ کے بادل گہرے ہونا شروع ہو گئے۔
سیاست دان، موقع پرست اور دولت کے پجاری،
غصے سے لال پیلے ہوئے جا رہے تھے۔
چاچا دوسو ان کے بیانات پہ بہت ہنستا تھا۔۔۔
جیسے ہی نیا بیان سنتا، قہقے اس کے بلند ہوتے۔
یہ وطن کی محبت میں ایسا کہتے ہیں, اور چاچا ہنستے ہو؟
میں نے منہ بسورتے ہوئے پوچھا۔
بیٹا گولی اور بارود بہت ظالم ہوتے ہیں،
جنگ چھڑتے ہی سب سے پہلے پیٹھ، بیانات دینے والے دکھائیں گے۔
چاچا دوستوں کے قہقے مزید بلند ہو چکے تھے۔