اسحاق وردگ کی شعری دنیا۔۔۔

روبرو۔۔۔محمد نوید مرزا

5

صوبہء سرحد پاکستان کا ایک ایسا خطہ ہے،جہاں زیادہ تر پشتو زبان بولی جاتی ہے۔لیکن اردو زبان و ادب کے حوالے سے بھی شعر و نثر سے تعلق رکھنے والی کئی عظیم شخصیات اس علاقے میں اپنی قومی وبین الاقوامی خدمات کے لئے مشہور رہی ہیں۔سرحد کے اردو شاعروں میں جناب احمد فراز،جناب فارغ بخاری،جناب محسن احسان،جناب غلام محمد قاصر،جناب رضا ہمدانی،جناب نذیر تبسم ،جناب خاطر غزنوی،جناب سعید احمد اختر اور جناب عزیز اعجاز کا نام مشہور و معروف رہا ہے۔اس کے بعد شعراء و ادباء کی ایک پوری کھیپ ہے،جو اردو ادب کا مستقبل ہیں۔انہی خوب صورت شاعروں میں ایک اہم شاعر جناب اسحاق وردگ بھی ہیں۔جن کا اردو شعری مجموعہ ،شہر میں گاؤں کے پرندے،،ان کی پہچان ہے۔اس کے علاؤہ وہ بچوں کے ادب سے بھی وابستہ ہیں۔
اسحاق وردگ کی شاعری جدید طرز احساس پر مشتمل ہے۔لیکن ان کے ہاں روایت کی پاسداری بھی نظر آتی ہے۔ان کا شعری مجموعہ سادگی ،پرکاری اور پختگی کی عمدہ مثال ہے۔وہ نئی نسل کے نمائندہ شاعر ہیں اور شاعروں کے اس ہجوم میں اپنے لئے ایک الگ راستہ بناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔بقول گریٹ ظفر اقبال،،اسحاق وردگ کا پیرائیہء اظہار کہہ رہا ہے کہ وہ شاعروں کے ہجوم میں دوسروں سے منفرد نظر آنے کی راہ پر گامزن ہے۔مجھے خوشی ہے کہ اظہار وردگ کے روپ میں خیبر پختونخوا کی اردو شاعری نئے روپ لے چکی ہے جس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔،،
جناب ظفر اقبال کے اس خیر مقدم کے بعد آئیے اسحاق وردگ کے چند شعر دیکھیں۔۔۔

خیرات میں دے آیا ہوں جیتی ہوئی بازی
دنیا یہ سمجھتی ہے کہ میں ہار گیا ہوں

دروازے کو اوقات میں لانے کے لیے میں
دیوار کے اندر سے کئی بار گیا ہوں

کاغذ کے بنے پھول جو گلدان میں رکھنا
تتلی کی اداسی کو بھی امکان میں رکھنا

میرے جذبے سے کھیلنے والے
کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں
اور پھر یہ شعر جو کتاب کے نام کا باعث بنا۔۔

اب شام ہے تو شہر میں گاؤں کے پرندے
رہنے کے لئے کوئی شجر ڈھونڈ رہے ہیں

آپ نے دیکھا کیسے رواں دواں اور تازہ دم شعر ہیں۔اسحاق وردگ نئے امکانات کے شاعر ہیں ۔وہ ہمہ وقت نئی زمینوں،بحروں اور خیال آفرینی کی تلاش میں ہیں ۔مجھے کہیں کہیں ان کے ہاں تصوف کا رنگ بھی دکھائی دیتا ہے۔ان مختلف حوالوں سے ان کے شعر دیکھیں۔۔۔
دن میں ہوتا ہے چاند رات کا دکھ
ساتھ اس الٹی نفسیات کا دکھ

مرنے والوں کا درد اپنی جگہ
ساتھ خود کش کی نفسیات کی دکھ

روح تو پہلے خشک صحرا تھی
اب تصوف ہے موجزن سائیں

حسن باہر دھمال ڈالے ہے
مجھ میں ہے عشق موجزن سائیں

جس کے اندر عشق حقیقی موجزن ہو جائے وہ بہت سی نئی منازل سے آشنا ہو جاتا ہے۔اسحاق وردگ محبت سے لے کر کائنات کےدیگر معاملات و مسائل پر عمدگی سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔بقول غنی غیور،،اسحاق وردگ کا تعلق پشاور سے ہے لہذا ان کے کلام میں پشاور کے حالات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ اکیسویں صدی کی نئی حسیات ،وجودی فکر،مابعد الطبیعیاتی افکار،تصوف ،فرد کی تنہائی و احساس،رائیگانی،شناخت کا مسئلہ،انسان کی شکستگی کے مضامین ملتے ہیں،،
اسحاق وردگ عصری مسائل کے علاؤہ محبت کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔لیکن یہاں بھی ان کے ہاں انفرادیت ملتی ہے۔چند شعر دیکھیں۔۔۔۔
عشق میں تھوڑی سی سہولت تھی
حضرت قیس کے زمانے میں

مکتب عشق سے سبق لینے
لوگ آئیں گے ہر زمانے میں

یہ راہ محبت تو فقط بند گلی ہے
آسان سے رستے کو بھی سامان میں رکھنا

میں عشق ہوں اور میرا نہیں کوئی ٹھکانہ
اے حسن مجھے دیدہء حیران میں رکھنا

اسحاق وردگ کا یہ شعری سفر پوری توانائی اور تندہی سے جاری ہے۔وہ سرحد میں ہی نہیں پورے پاکستان میں بطور شاعر ایک پہچان رکھتے ہیں ،دعا ہے کہ ان کا یہ شعری سفر تادیر جاری رہے اور وہ یونہی ادب کی خدمت کرتے رہیں۔آمین

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.