یہ 15 اپریل کی شام تھی۔ دفتر سے واپسی پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے گیٹ کے قریب غیر معمولی چہل پہل نے قدم روک لیے۔ گیٹ وے بلاک کے پیچھے خالی میدان میں رنگا رنگ ٹینٹ نصب کیے جا رہے تھے اور نوجوان پُرجوش انداز میں سرگرمِ عمل تھے۔ صحافتی تجسس نے مجھے اُسی سمت موڑ دیا۔قریب جا کر معلوم ہوا کہ اگلے روز ”ایجوکیشن ایکسپو 2025“ کا انعقاد ہونے جا رہا ہے، جس کی تیاریوں کی نگرانی خود آفس آف ریسرچ، انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن (ORIC) کی ایڈیشنل ڈائریکٹر، ڈاکٹر صائمہ ناصر کر رہی تھیں۔ اُن کی قیادت میں عملہ ایک مشن کی طرح سرگرم تھا۔16 اپریل کی صبح، یونیورسٹی واقعی علم، جدت اور سرگرمیوں کا مرکز بن چکی تھی۔ رنگ برنگے اسٹالز، خوبصورت ٹینٹس اور طلبہ کا والہانہ جوش گویا کسی علمی میلے کا سماں تھا۔ایکسپو کا باقاعدہ افتتاح وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود نے فیتہ کاٹ کر کیا۔ اُن کے ہمراہ رجسٹرار راجہ عمر یونس، ڈینز، اساتذہ اور دیگر اعلیٰ افسران بھی شریک تھے۔ وائس چانسلر نے مختلف اسٹالز کا دورہ کیا، شرکاء سے مکالمہ کیا، اُن کی محنت کو سراہا اور ORIC کی ٹیم کو خصوصی خراج تحسین پیش کیا۔دلچسپ بات یہ کہ شرکاء کی حوصلہ افزائی کے لیے وائس چانسلر نے خود قرعہ اندازی میں حصہ لیا، 100 روپے کا نوٹ نکالا اور ٹکٹ خریدا۔یہ ایک قائد کی سادگی، اپنائیت اور عزم کا مظہر تھا۔
بعد ازاں ”گرین پاکستان مہم” کے تحت یونیورسٹی گراؤنڈ میں پودا لگا کر ماحولیاتی بہتری کا پیغام دیا گیا۔ملک بھر سے کئی جامعات، ٹیکنالوجی کمپنیاں اور صنعتی ادارے اس علمی میلے میں شریک تھے۔ ہر اسٹال ایک نئی دنیا کا دروازہ کھولتا دکھائی دیا، جہاں نہ صرف تعلیمی رہنمائی اور کیریئر گائیڈنس میسر تھی بلکہ جدید ہنر اور اسکالرشپ کے مواقع بھی پیش کیے جا رہے تھے۔اساتذہ اور افسران نے اس ایکسپو کو ایک ”تاریخی کامیابی” قرار دیا جبکہ طلبہ کے مطابق یہ تجربہ ان کے لیے معلومات، اعتماد اور مستقبل کی سمت متعین کرنے والا ثابت ہوا۔ایک طالبہ نے کہا کہ یہ ایکسپو ہمارے لیے علم، رہنمائی اور خود اعتمادی کا سنگم تھا۔ایکسپو کے دوران مقامی اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے طلبہ و طالبات دن بھر بڑی تعداد میں شریک ہوتے رہے اور مختلف تعلیمی و ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ ایک سٹال پر اسکول کے طلباء و طالبات نے ایک دلکش ثقافتی پروگرام پیش کیا، جس میں انہوں نے ملی نغمے اور مختلف پاکستانی زبانوں میں گیت گا کر شرکاء کا جوش و خروش دوبالا کیا۔اختتامی تقریب کے مہمانِ خصوصی سردار یاسر الیاس خان (سی ای او، سینٹورس) تھے۔ اُنہوں نے نوجوانوں کے جذبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی منزلیں خود بنانی ہوں گی۔ بیرونِ ملک جانے سے بہتر ہے کہ یہاں سمال بزنس شروع کریں، کچھ نیا سوچیں، کچھ نیا کریں۔سردار الیاس نے نوجوانوں کو اسٹارٹ اپس کی جانب راغب کرنے کے لیے ایجوکیشن ایکسپو کے کامیاب انعقاد پر وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود کو دلی مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کی تقریبات نہ صرف نوجوانوں کو راہنمائی فراہم کرتی ہیں بلکہ ان کے روشن مستقبل کی ضمانت بھی بنتی ہیں۔
تقریب کے آخر میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے اداروں، شرکاء اور طلبہ کو اعزازی اسناد اور شیلڈز سے نوازا گیا۔ یوں یہ ایکسپو علم، تحقیق اور تخلیق کے فروغ کی ایک مضبوط روایت قائم کر گیا۔مگر اس دن کی کہانی کا اختتام ایک حیران کن موڑ پر ہوا۔جیسے ہی تقریب ختم ہوئی، تیز ژالہ باری شروع ہو گئی۔ آسمان سے برفیلے اولے برسنے لگے اور شرکاء اپنی گاڑیوں کی طرف دوڑ پڑے۔ مگر میں وہیں کھڑا رہا کیونکہ میں ایک عام سا، گمنام سا، مزدور صحافی ہوں۔ میرے لیے موسم سے بڑھ کر ”خبر” اہم تھی۔شدید ژالہ باری میں، بھیگتا، کانپتا، زخمی ہوتا ہوا، میں آفس کی جانب دوڑ رہا تھا کہ خبر کی دیر نہ ہوجائے۔ اولوں کی ضرب ناقابلِ برداشت تھی، کپڑے شرابور، جسم لہولہان، مگر دل مطمئن تھاکہ میں وقت پر خبر پہنچا رہا ہوں۔آفس پہنچ کر آئینے میں خود کو دیکھا: زخمی، نڈھال، مگر سرشار۔اسی لمحے دل میں ایک یقین ابھرا کہ میں واقعی اپنے کام کا دیوانہ ہوں۔یہ ذکر کرنا بے حد ضروری ہے کہ وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود کی مدبرانہ قیادت میں یونیورسٹی کا ماحول یکسر بدل چکا ہے۔ صرف دو سال کے قلیل عرصے میں یہ ادارہ تعلیمی، تحقیقی، ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کا ایک فعال مرکز بن چکا ہے۔ اب یونیورسٹی کی فضا روزانہ کسی نہ کسی علمی، فکری یا ثقافتی تقریب کی گونج سے معطر رہتی ہے۔گزشتہ دو برسوں کے دوران یہ دوسری ”ایجوکیشن ایکسپو“ منعقد ہوئی اور دونوں تقریبات اپنی شان و شوکت اور کامیابی کے لحاظ سے بے مثال رہیں۔ بلاشبہ، پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں یونیورسٹی کو علمی سرگرمیوں کا مرکز بنانے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کی جائے۔میں نے اس تعلیمی میلے کے آٹھ بار دورے کیے، ہر بار کچھ نیا، کچھ دلچسپ دیکھنے کو ملا۔ ہر بار آفس آف ریسرچ، انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن (ORIC) کی ٹیم کو متحرک پایا۔ایڈیشنل ڈائریکٹر، ڈاکٹر صائمہ ناصر، سینئر ریسرچ آفیسر جمیلہ احمد، مینیجر ریسرچ آپریشن محمد مشتاق اور ریسرچ اسسٹنٹ اویس اشرف اس کامیابی کے اصل معمار ہیں،اُن کی محنت اور لگن قابلِ تحسین ہے۔