قوموں کی ترقی صرف سڑکوں، پلوں یا بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی اصل بنیاد زبان اور تہذیب پر قائم ہوتی ہے۔ زبان کسی بھی قوم کی پہچان، وحدت، فکر اور شعور کی ضامن ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں نے اپنی قومی زبان کو اپنایا اور اسی زبان میں علم و تحقیق کے دروازے کھولے۔ بدقسمتی سے پاکستان، جو اردو کو قومی زبان قرار دے کر وجود میں آیا، آج تک اپنی زبان کو عملی طور پر سرکاری اور دفتری سطح پر نافذ نہ کر سکا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے ۲۰۱۵ء میں ایک تاریخی فیصلہ دیا تھا کہ اردو کو فوری طور پر سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے واضح کیا کہ آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ کے مطابق اردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور ریاست پر لازم ہے کہ اسے سرکاری دفتروں، اداروں اور نظام میں بروئے کار لائے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ تمام سرکاری دستاویزات، قوانین اور عدالتی فیصلے اردو میں ہوں تاکہ عام آدمی بھی انہیں سمجھ سکے۔ یہ فیصلہ دراصل پاکستانی عوام کے دل کی آواز تھا، کیونکہ ملک کی اکثریت اردو زبان کو سمجھتی اور بولتی ہے۔ لیکن افسوس کہ اس فیصلے پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ آج بھی زیادہ تر دفاتر میں انگریزی زبان کو فوقیت حاصل ہے اور عوام اپنے ہی ملک میں اجنبی بنے ہوئے ہیں۔
زبان اور ترقی کا بہت گہرا تعلق ہے۔ زبان محض رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ فکر کو پروان چڑھاتی اور نئی نسل کو شناخت دیتی ہے۔ اگر ہم دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ وہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جنہوں نے اپنی قومی زبان کو ذریعہ تعلیم اور ذریعہ اظہار بنایا۔ چین نے اپنی زبان “مینڈارن” کو بنیاد بنا کر جدید سائنس و ٹیکنالوجی میں دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا۔
جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی زبان جاپانی کو اپنایا اور آج دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔ جرمنی نے جرمن زبان میں علم و تحقیق کو فروغ دیا اور یورپ کی سب سے مضبوط ریاست بن گیا۔
فرانس نے فرانسیسی زبان کو اپنی پہچان بنایا، یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں بھی فرانسیسی ایک اہم زبان کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
اس کے برعکس وہ ممالک جو اپنی زبان کو پس پشت ڈال کر غیر ملکی زبان پر انحصار کرتے ہیں، ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی انہی میں شامل ہے۔
اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک روحانی سرمایہ ہے۔ یہ زبان برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی مشترکہ پہچان رہی ہے۔ تحریک پاکستان کا پورا بیانیہ اردو میں پروان چڑھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۹۴۸ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران کہا تھا:
“پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی، اور کوئی دوسری زبان نہیں۔”
اردو کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ ہر علاقے اور ہر طبقے کے لوگوں کو جوڑتی ہے۔ پنجابی، سندھی، پشتون، بلوچ یا مہاجر، سب اردو کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔ یہ زبان قومی یکجہتی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔
پاکستان کے مختلف صوبوں کی اپنی مادری زبانیں ہیں، جو اپنی جگہ ایک قیمتی اثاثہ ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ ان سب کو جوڑنے والی واحد زبان اردو ہے۔ اگر ہم اردو کو مضبوطی سے اپنائیں تو لسانی اور علاقائی تقسیم ختم ہو سکتی ہے۔ لیکن جب سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے انگریزی کو ترجیح دیتے ہیں تو ایک بڑی خلیج پیدا ہو جاتی ہے۔ دیہی پس منظر سے آنے والا طالب علم، جو اردو یا اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتا ہے، انگریزی کے نظام میں داخل ہوتے ہی مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں قابلیت کا معیار زبان بنا دیا گیا ہے، اور لاکھوں ذہین طلبہ صرف زبان کی رکاوٹ کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔
پاکستان میں انگریزی کو رواج دینے کے نتیجے میں ایک طبقاتی فرق جنم لے چکا ہے۔
اشرافیہ کے بچے انگریزی میڈیم اسکولوں میں پڑھ کر اعلیٰ عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
غریب اور متوسط طبقہ اردو میڈیم یا مادری زبان کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کر کے مقابلے سے باہر ہو جاتا ہے۔ اس سے معاشرتی ناہمواری اور ناانصافی جنم لیتی ہے۔
مزید یہ کہ انگریزی میں سوچنے اور لکھنے والا طبقہ اکثریت سے کٹ جاتا ہے۔ وہ نہ عوام کی زبان سمجھتا ہے اور نہ عوام اس کی زبان سمجھ پاتے ہیں۔ یہی وہ خلیج ہے جس نے حکمرانوں اور عوام کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی ہے۔
ترکی نے مصطفیٰ کمال اتاترک کے دور میں اپنی زبان کو نافذ کیا۔ آج وہاں ہر تعلیم ۔ٹیکنالوجی، سائنس اور ادب اپنی زبان میں ہے۔
ایران نے فارسی زبان کو اپنی شناخت بنایا، حالانکہ ان کے پڑوس میں انگریزی کا دباؤ موجود تھا۔ روس نے روسی زبان میں تعلیم و تحقیق کو فروغ دیا اور خلاء کی تسخیر کی۔
ان مثالوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی کے لیے سب سے پہلا قدم اپنی زبان کو اپنانا ہے۔
اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اردو میں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے الفاظ موجود نہیں۔ یہ اعتراض حقیقت سے زیادہ پروپیگنڈا ہے۔ دنیا کی ہر زبان نے ابتدا میں نئے الفاظ اخذ کیے اور پھر انہیں اپنی زبان کا حصہ بنایا۔ اردو میں بھی سائنسی اصطلاحات با آسانی بنائی جا سکتی ہیں۔ آج بھی کئی جامعات اور ادارے اس کام میں مصروف ہیں۔ ضرورت صرف حکومتی سرپرستی اور سیاسی عزم کی ہے۔
سپریم کورٹ نے اردو کو سرکاری سطح پر رائج کرنے کا حکم دے کر عوام کی امنگوں کی ترجمانی کی، لیکن افسوس کہ حکومتی اداروں نے اس فیصلے کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ اگر واقعی ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے اور ہر شہری کو یکساں مواقع میسر آئیں تو ضروری ہے کہ:
تمام سرکاری دفاتر میں خط و کتابت اردو میں ہوں۔