قسط نمبر:3
چنانچہ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ صورتحال کتنی گمبھیر تھی علاوہ ازیں ہمارا خاندانی پس منظر بھی کچھ ایسا تھا کہ کوئی فرد بھی تعلیم یافتہ نہیں تھا اگر کسی نے تعلیم حاصل کی بھی تھی تو واجبی سی تھی۔میرے والد میٹرک تھے، فیملی میں اور کوئی فرد ان سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر سکا تھا، ایسے میں صورتحال کوئی زیادہ حوصلہ افزاء نہ تھی اور پھر خوشاب جیسے شہر میں بینائی کا چلے جانا اتنا ہی خوفناک تھا جتنا کہ قدیم یونانیوں اور رومیوں کے عہد میں ہوتا تھا اور وہ معذورین کو یا تو دوردراز مقامات اور پہاڑوں پر چھوڑ آتے تھے یا دریائے ٹیبر(Tiber)کی موجوں کے حوالے کر دیتے تھے۔ خوشاب میں پہاڑ تو تھا اور ساتھ ہی دریائے جہلم بھی تھا لیکن اب انہیں پہاڑوں اوردریاؤں کی نذر تو نہیں کیا جاتاتھا ہاں انہیں چار دیواری میں مقید کر دیا جاتا تھا یا کسی مسجد یا مدرسے کے گوشے میں کم و بیش زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔عوا م الناس یقین رکھتے تھے کہ”آنکھیں گئیں تو جہان گیا“ہماری فیملی کا بھی یہی خیال تھا یہی وجہ ہے کہ ہمارے اعزاء و اقربا سمجھتے تھے کہ ہم زندگی میں کچھ نہیں کر سکیں گے، بعض کا خیال تھا کہ ہماری نابینائی والد صاحب کے کسی گناہ کی سزا ہے اور بعض کہتے تھے کہ شاید والد صاحب نے کسی بزرگ کا دل دُکھایا ہو گا۔ خوشاب وہ جگہ تھی جہاں عموماً کسی معذور کو دیکھ کر بچے تالیاں بجاتے تھے،تمسخر اڑاتے، آسیب زدہ قرار دیتے یا نشانِ عبرت گردانتے تھے۔
میری پیدائش اسی ماحول میں ہوئی تھی، والد صاحب پر کیا بیتی ہوگی؟ یہ تو مجھے معلوم نہیں، لیکن بینائی سے محروم ہو جانے کے بعد میں بھی اپنے آپ کو یکہ و تنہا محسوس کرنے لگاتھا،جو دوست گھنٹوں میرے ساتھ رہا کرتے تھے اب ان کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔مجھے یوں لگتا تھا کہ میرا چھوٹا بھائی بھی میرا مذا ق اڑاتا ہو اور غصے میں آکر والد صاحب کے منہ سے بھی انتہائی دکھ دینے والے جملے نکل جایا کرتے تھے۔جب وہ کبھی والدہ صاحبہ سے جھگڑتے تو جانے کیا کیا کہہ جاتے ”اندھے بچوں کی ماں ہوکر مجھ سے اکڑتی ہو“اور جب کبھی والدہ کو غصہ آتا تو وہ بھی کچھ اسی طرح کے جملے کہہ دیتیں،دادا جان(غلام نبی) حیات تھے وہ والد صاحب کو دیکھتے تو کئی بار کہہ اٹھتے ”دیکھا تمہاری کرنی آگے آئی“ لیکن والد صاحب اور والدہ صاحبہ کی محبت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا وہ مجھے اسی نظر سے دیکھتے تھے جیسے کہ ماں باپ عام طور پر بچوں کو دیکھتے ہیں“
3۔والدہ محترمہ:
ڈاکٹر اقبال کی زندگی میں جہاں ان کے والدشیخ اللہ دیا کا اہم کردار ہے وہاں ان کی والدہ شکوری بیگم کا کردار بھی کیسے کم ہو سکتا ہے۔ اصل پرورش تو ماں کو کرنا ہوتی ہے اور چار نابینا بچوں کی پرورش کرنا اور انہیں تیار کرنا وقت پر ہر کام کر لینا بہت مشکل ہو گا اگر چہ ڈاکٹر اقبال نے ان کا خصوصی ذکر کہیں بھی نہیں کیا لیکن جس انداز سے وہ پڑھتے لکھتے رہے وقت پر کالج آتے جاتے رہے اور دیگر امور سر انجام دیتے رہے اس سے ان کی والدہ کی محنتِ شاقہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ڈاکٹر شیخ اقبال کے مطابق ان کی والدہ بظاہر ناخواندہ تھیں لیکن انتہائی سوجھ بوجھ کی مالک تھیں انہیں کے والد حافظ کما ل الدین نے ٹھسکہ میراں جی میں شہرت کمائی ہوئی تھی ان کی والدہ دن رات اپنے نابینا بچوں کی فوزو فلاح کی دعا کرتی رہتی تھی ان کی وفات 15۔ مئی 1985میں ہوئی …
۔تعلیم
ڈاکٹر اقبال عجیب و غریب صورتحال سے دو چار رہے ان کے لئے تعلیم کا کوئی دَر وَا نہ تھا ان کے والد چاہتے تھے کہ اپنے بچے کو بحر صورت کسی کا دست نگر ہونے سے بچالیں، انہیں بھی کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا ایک مدرسے میں داخل کرایا،بات وہاں بھی نہ بنی اس کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے اپنی سوانح میں بڑی تفصیل سے کیا ہے لیکن ان کا سب سے پہلا بیانیہ اور درد بھرا اظہار ان کے پہلے شعری مجموعے”ساحلِ تشنہ لب“ میں ہوا ہے:
”ابھی زندگی کے رنگ ہائے گوناں گوں سے آشنا بھی نہ ہو نے پایا تھا کہ میں آٹھ نو سال کی عمر میں رنگوں کی دنیا سے یکسربے نیاز ہو گیا اور صرف ایک رنگ باقی بچ رہا مایوسیوں کا رنگ۔۔۔۔ دوستوں اور عزیزوں کے ترحم کا رنگ۔۔۔ ارادوں کی شکست کا رنگ۔۔۔ منزلوں کے فریب کا رنگ۔۔۔ بے بسی کا رنگ۔۔۔ میں تھا کہ تصویرِ یاس بن گیا تھا، دن راتوں میں ڈھل گئے تھے۔ راتیں طویل ہوتی چلی گئیں لیکن ہر رات کی صبح ہوتی ہے چنانچہ میری راتیں بھی صبح آشنا ہوئیں اور یہ صبح امید افزا 1956 میں نابینا سکول شیراں والا گیٹ لاہور میں ضوفشاں ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے میری سد حیات کو معصوم تمناؤں اور آرزوؤں کے تازہ بہ تازہ گل و سوسن سے لبریز کر دیا، زندگی نے درِ دل پر دستک دی اور مجھے ایک لحظہ کے لئے یوں محسوس ہوا کہ میں نے روٹھی ہوئی زندگی کو پھر سے گلے لگا لیا ہو۔ اس ادارے میں میں اور میرے ہم جماعت اور اساتذہ سب کے سب اک ہی کشتی کے سوار تھے،دکھ کے اس اجتماعی احساس نے حوصلوں کی کرن کو اور بھی تابناک بنا دیا اور جب سب ایک ہی کشتی میں سوار ہوں تو طوفان اپنی شدت کھو دیتے ہیں اور موجیں ساحل بگوش نظر آتی ہیں لیکن یہ صرف ایک پناہ گاہ تھی اور نابیناؤں کی کاوشوں کی معراج صرف یہ تھی کہ وہ صرف کرسیاں،چارپائیاں، چکیں اور پیڑیاں بنتے اور سر دھنتے۔اس ادارے کے ایک سپرنٹنڈنٹ نے کمال احساسِ تفاخر سے میرے والد محترم شیخ اللہ دیا کو کہاتھاگھبرائیے نہیں آپ کا بیٹا ہماری ورکشاپ میں کام کر کے بڑا نام پیدا کرے گا۔ یاد رہے کہ اس وقت ایک ورکر کا مشاہرہ 45 روپے ماہانہ تھا۔ بالآخر1960 کی صبح طلوع ہوئی اور