سائفر کیس میں سزا کے خلاف عمران خان کی اپیل

52

مائنڈ سیٹ یہ ہے ایف آئی آر ہو گئی تو بندہ اٹھا لو، یہ افسوسناک ہے‘، چیف جسٹس کے ریمارکس

اسلام آباد (کورٹ رپورٹر)سابق وزیر اعظم عمران خان کو سائفر کیس میں سنائی گئی سزا کے خلاف دائر کردہ اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رُکنی بینچ نے منگل کو سماعت کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں دو رکنی بینچ اس اپیل کی سماعت کر رہا ہے اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب بھی اس کا حصہ ہیں۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ انھیں اس کیس کا وکیل مقرر کیا گیا ہے اور انھیں تیاری کے لیے وقت درکار ہے۔

عمرا ن خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عدالت نے گذشتہ سماعت پر واضح کیا تھا کہ سماعت میں التوا نہیں ہوگا۔

ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ابھی اس کیس کی پیپر بُکس بھی تیار نہیں ہوئیں۔ انھوں نے کہا کہ ان اپیلوں پر ایک مرتبہ سماعت شروع ہوگئی تو غیر ضروری التوا نہیں مانگا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ مجھے پہلے اس کیس کے تمام ریکارڈ کا جائزہ لینا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے کہ ابھی تو اپیل کنندہ کے وکیل دلائل کا آغاز کر رہے ہیں اور کون سا یہ دلائل ایک دن میں ختم ہو جائیں گے؟ اس دوران آپ اپنا پیپر ورک مکمل کر لیجیے گا۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس میں مختلف دفعات کے تحت سزائیں سنائی گئیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کو 15 اگست کو گرفتار کیا گیا جبکہ اس مقدمے کے دوسرے ملزم شاہ محمود قریشی کو 19 اگست کو گرفتار کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ایف آئی اے کی جانب سے سائفر کی آمد اور غلط استعمال سے متعلق انکوائری کی گئی اور 28 مارچ کو بنی گالہ میٹنگ کو سازش قرار دینے کا الزام عائد کیا گیا۔

بیرسٹر سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ 17 ماہ کی تاخیر سے ایف آئی آر درج کی گئی اور اس کیس میں مدعی یوسف نسیم کھوکھر سیکرٹری داخلہ بنے۔

انھوں نے کہا کہ یہ مقدمہ تو وزارت خارجہ کا تھا تو اس مقدمے کا مدعی کا تعلق بھی وہیں سے ہونا چاہیے تھا۔

انھوں نے کہا کہ عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اس مقدمے میں ایف آئی اے نے اپنے ہی ملزم (اعظم خان) کا سٹیٹس ملزم سے تبدیل کر کے گواہ کا کر دیا۔

انھوں نے کہا کہ جس روز اعظم خان کا 161 کا بیان ریکارڈ ہوا اسی روز مجسٹریٹ کے سامنے 164 کا بیان بھی ریکارڈ کرایا گیا، اس لیے ان کووعدہ معاف گواہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔

عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ کسی ملزم کو وعدہ معاف گواہ بنانے کا قانون میں ایک طریقہ کار طے ہے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے سابق وزیر اعظم کے علاوہ شاہ محمود، اعظم خان اور اسد عمر کو ملزم بنایا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اعظم خان نے 164 کے بیانات مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کروائے۔ جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے استفسار کیا کہ کیا 164 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کی ریکوایرمنٹ پوری ہوگئی ہے؟

اس پر سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ میری نظر میں پوری نہیں ہوئیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسد عمر اور اعظم خان کو چالان میں ملزمان کے خانوں میں بھی نہیں ڈالا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق اعظم خان ملزم ہیں جبکہ چالان کہتا ہے کہ وہ گواہ ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے استفسار کیا کہ کیا اعظم خان پر جرح ہوئی؟ جس پر عمران خان کے وکیل نے جواب دیا میں نے نہیں کی، ڈیفنس کونسل حضرت یونس نے کی تھی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ڈیفنس کونسل نے اعظم خان کے مبینہ اغوا سے متعلق کوئی سوال نہیں کیا؟ جس پر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ نہیں، یہ سوال نہیں کیا گیا

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کو ڈیفنس کونسل مقرر کیا جاتا ہے تو اس نے اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوتی ہے۔

جسٹس میں گل حسن اورنگ زیب نے استفسار کیا کہ کیا سرکاری وکیل نے تمام حقائق جانتے ہوئے بھی اس متعلق سوال نہیں کیا؟ جس پر عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ڈیفنس کونسل نے 48 گھنٹوں میں 21 گواہوں پر جرح مکمل کی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے استفسار کیا کہ کیا ڈیفنس کونسل مقرر کرنے کے لیے کوئی عدالتی حکم جاری کیا گیا؟ عدالت کو بتایا گیا کہ سکندر ذوالقرنین ایک دن پیش نہیں ہوئے اور سرکاری وکیل مقرر کر دیے گئے۔

سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کے وکیل الیکشن مہم کی وجہ سے عدالت پیش نہیں ہو سکے تھے۔

انھوں نے کہا کہ گرفتاری کے حوالے سے اعلی عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں اور عدالتوں نے کہا کہ اگر انتہائی مضبوط ثبوت اور واضح شواہد ہوں تو گرفتار کیا جائے۔

بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے کچھ تقاضے ہیں اور اس حوالے سے اس عدالت کے فیصلے بھی موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مہذب دنیا میں پریکٹس ہے کہ پہلے تفتیش اور انکوائری کے لیے بلایا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر کوئی چیز ریکور کرنی ہو تو پھر الگ صورتحال ہوتی ہے۔

عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں اُسی روایتی انداز میں الزامات لگائے گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ1960 اور آج کی ایف آئی آر اٹھا لیں کوئی فرق نہیں ہو گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کلہاڑے کی جگہ کلاشنکوف آ گئی لیکن محرر کا مائنڈسیٹ ابھی تک تبدیل نہیں ہو سکا۔

انھوں نے کہا کہ نیب ہو، پولیس ہو یا ایف آئی اے ہو، ہمارا مائنڈسیٹ نہیں بدلا۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص تفتیش میں تعاون کرے تو اس کی گرفتاری کی ضرورت نہیں ہوتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مائنڈسیٹ یہ ہے کہ اگر ایف آئی آر ہو گئی تو بندہ اٹھا لو، یہ افسوسناک ہے۔

جسٹس میاں گُل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے کہ سائفر کے مقدمے کی کوئی عام ایف آئی آر نہیں بلکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے۔

عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس اپیل کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ کیس کے میرٹس کیا ہیں اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس مقدمے کو کس انداز میں چلایا گیا۔

چیف جسٹس نے سابق وزیر اعظم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس کو اتنا آسان نہ سمجھیں اور آئندہ مکمل تیاری کے ساتھ آئیں کیونکہ یہ مقدمہ ایک سپیشل لا کے تحت درج کیا گیا ہے اور اپ نے عدالت کی معاونت کرنے کے ساتھ ساتھ عدالت کی طرف سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب بھی دینے ہیں۔

عدالت نے عمران خان کی اپیل پر سماعت 11 مارچ تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ خصوصی عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو اس سال 30 جنوری کو سائفر کے مقدمے میں دس دس سال قید کی سزا سنائی تھی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.