پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین معاشی، سماجی اور انتظامی بحران کا شکار ہے۔ عوامی ریلیف کا نعرہ تو ہر سیاسی جماعت کے منشور میں ہوتا ہے، مگر اس پر عمل درآمد کی مثال ڈھونڈنا محال ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے اقتدار کا کھیل انہی چہروں کے گرد گھوم رہا ہے جن کی ترجیحات میں کبھی غریب عوام نہیں رہی۔
عوامی ہیلپ لائن پاکستان نے تواتر سے ایک نہایت سنجیدہ، مدبرانہ اور حقیقت پسندانہ مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کی تمام ڈویژنوں کو انتظامی طور پر صوبے کا درجہ دیا جائے تاکہ وسائل کی برابر تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔ آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وسائل مخصوص علاقوں اور اشرافیہ میں مرتکز ہو چکے ہیں، جبکہ پسماندہ خطے ترقیاتی عمل سے یکسر محروم ہیں۔
آئینی و جمہوری روایات میں متناسب نمائندگی اور صدارتی نظام جیسے ماڈلز کئی ممالک میں کامیابی سے چل رہے ہیں۔ پارلیمانی نظام میں اقلیتی ووٹوں سے اکثریتی حکومتیں قائم ہو جاتی ہیں، اور نمائندگی کا معیار صرف پیسے، طاقت اور برادریوں پر استوار ہوتا ہے۔ متناسب نمائندگی کے ذریعے نہ صرف ہر طبقے کو آواز ملتی ہے بلکہ ریاستی پالیسی بھی متوازن اور جامع بنتی ہے۔
پاکستان کے عوام اب صرف ایک ہی بات چاہتے ہیں: ریلیف۔
انہیں اس بحث سے کوئی سروکار نہیں رہا کہ ملک میں آمریت ہے یا جمہوریت، مارشل لا ہے یا الیکشن کمیشن۔ جب تک غریب کے بچوں کو تعلیم، روزگار، صحت اور انصاف نہیں ملتا، تب تک ہر نظام ایک سا ہے۔
تمام بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار کے مزے لوٹ چکی ہیں، لیکن پاکستان اور عوام کے اصل مسائل – مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، بدانتظامی – آج بھی وہیں کے وہیں ہیں۔ ہر پانچ سال بعد وہی چہرے نئے وعدے لے کر آتے ہیں، لیکن عمل صفر۔
اب وقت آ چکا ہے کہ عوام اس جھوٹے بیانیے کے فریب سے نکل کر صرف اور صرف اپنی بہتری، اپنے مستقبل اور اپنے بچوں کی بقا کے لیے ایک نئی قیادت کو چنے۔ وہ قیادت جو نظریاتی ہو، باکردار ہو، اور عوام کے درمیان سے ہو۔
طاقت اب اسی کے ہاتھ میں جائے گی جو عوام کے ساتھ کھڑا ہوگا، جو جھوٹے خواب نہیں، بلکہ عملی ریلیف دے گا۔
یہ محض کالم نہیں، بلکہ وقت کی آواز ہے۔
اگر یہ آواز نہ سنی گئی، تو آنے والا طوفان سب کو بہا لے جائے گا۔