اس بات کا میں اپنے کسی مضمون میں پہلے بھی تذکرہ کر چکا ہوں کہ بنک ملازمت کے دوران موجودہ سینٹر سعید غنی کے والد شہید عثمان غنی اور غلام محمد ڈوگر مرحوم کے ساتھ میری بڑی گہری دوستی ہوا کرتی تھی ہم نے کئی ملکی و غیر ملکی سفر اکھٹے کئےاورعمرے کی سعادت بھی ایک ساتھ حاصل کی جس کے دوران ہماری زندگی کے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوا کرتی تھی ۔عثمان غنی شہید ملک کے بڑے یونین لیڈر ایک انقلابی ذہن رکھنے والی شخصیت ہوا کرتے تھے ۔ایک مرتبہ کہنے لگے جاوید ! ہم غریب اور چھوٹے لوگ ہیں ہمارے حصے میں ہمیشہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی ہیں اس لیے اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں کو بڑے طریقے سے منایا کرو ،کہیں بڑی خوشیوں کے انتظار میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لطف سے ہی محروم نہ رہ جاو ۔اکثر وہ خوش ہونے اور خوشی منانے کےچھوٹے چھوٹے بہانے تلاش کرتے رہتے تھے اور معمولی معمولی بات پر جشن کا سماں برپا کر دیتےتھے ۔وہ کہتے تھےکہ اپنی خوشی تو سب مناتے ہیں کمال تب ہے کہ دوسروں کی خوشی میں شامل ہوکر اسے بھی اپنی خوشی بنا لو ۔لوگوں میں بانٹتے رہا کرو ،دوا نہیں تو دعا ہی سہی ،علاج نہیں تو تسلی ہی سہی ،کچھ نہیں تو میٹھے بول او مسکراہٹ ہی سہی ،دل آپ کا پنا ہے یا آپ کے اپنوں کا وہ خوش رہنا چاہتا ہے یہ دل ہی تو ہے جو پوری زندگی آپ کے لیے دھڑکتا ہے اسے دھڑکنے میں مدد صرف خوشی دے سکتی ہے ۔چھوٹی خوشی اور ہلکی مسکراہٹ ایک ایسا جادو ہے جو اپنے ہی نہیں دوسروں کے دلوں کو بھی منور کردیتا ہے ۔عثمان غنی شہید کہتے تھے کہ خوش رہنے کے لیے بڑی بڑی خوشیوں کا انتظار نہ کریں بلکہ ہر دن کے ہر پل کو اچھے اورخوشیوں سے بھر پور گزاریں ۔دکھوں سے بھری زندگی میں خوشی کے چند لمحے بھی تھکان اتارنے کے لیے بہت ہوتے ہیں ۔ناجانے آپ کے پاس کتنی زندگی باقی ہے ۔چھوٹی خوشیاں نہ منانے سے بڑی خوشیاں بھی روٹھ جاتی ہیں اور دکھوں کی شدت بڑھ جاتی ہے ۔جب بڑی بڑی خوشیاں میسر نہ ہوں تو چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بڑا بنا لینا کمال ہوتا ہے ۔ہمارے شہر ڈیرہ نواب صاحب کے ایک کریانہ فروش منظور بھایا کے دوست رات کو ان کے پاس اکھٹے ہوتے تو وہ خوشی سے قہقہے لگاتے جو اتنا بلند ہوتے کہ دور دور تک سنے جاتے ۔میں نے ایک مرتبہ پوچھا کہ جب آپ دوست اکھٹے ہوتے ہیں توقہقہے کیوں لگاتے ہیں ؟ تو کہنے لگے خوشی کی وجہ سے ،میں نے کہا کس بات کی خوشی ؟ تو کہنے لگے دوستوں کے مل بیٹھنے سے بڑی خوشی دنیا میں اور کیا ہو سکتی ہے ؟
ہمارے اباجی مرحوم کہتے تھے کہ زندگی میں خوشیوں اور دکھوں کا تناسب اتنا ہوتا ہے جتنی کرہ ارض پر خشک زمین اورسمندر کا پانی ہے یاد رہے کہ کرہ ارض پر اکہتر فیصد پانی اور انتیس فیصد خشکی ہے ۔دکھوں کی تعداد شاید اس اکہتر فیصد سمندر کے پانی سے بھی زیادہ ہو گی لیکن خوشیوں کی تعداد انتیس فیصد ہی ہے ۔انسان کی زندگی میں بڑی خوشیاں ہمیشہ نہیں آتیں انہیں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بڑا بنا کر منانا پڑتا ہے ۔کوئی بھی خوشی محسوس کرنے سے بڑی بن جاتی ہے ۔کامیابیاں ،بڑے خوابوں تکمیل یہ سب کبھی کبھار ہی نصیب ہوتی ہیں ۔لیکن چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہر دن ہمارے آس پاس موجود رہتی ہیں ۔جیسے کسی بچے کی مسکراہٹ ،پرانے دوست سے ملاقات ،بارش کی خوشبو ی، کوئی خوبصورت چہرہ ،ایک اچھی کتاب کا کوئی صٖفحہ یا چند لفظ ، تنہائی کے لمحات میں دل کو سکون دینے والی موسیقی یا پھر نیک دلوں کی پر خلوص دعائیں ۔اگر ہم ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو نظر انداز کرتے رہیں تو زندگی کا چہرہ بوجھل اور غمگین سا لگنے لگتا ہے ۔پر ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ خوشی تو ہے ہی نہیں ،حالانکہ وہ ہمارے قریب موجود ہوتی ہے اور ہم نے اس پر غفلت کا پردہ ڈال کررکھا ہوتا ہے ۔یہی غفلت ان خوشیوں کو گرہن لگا دیتی ہے اور ہماری محسوس کرنے کی حس وہاں تک نہیں پہنچ پاتی ۔دراصل ہم نے خود ہی اپنی خوشیوں کو دریافت کرکے ان تک پہنچنا ہوتا ہے ۔ان پوشیدہ خوشیوں کی تلاش ہمارےاپنے ہی مثبت رویے اور سوچ سے ممکن ہوتی ہے ۔ کبھی ہم کسی سے کچھ لے کر خوش ہوتے ہیں اور کبھی کبھی کسی سے کچھ لے کر خوشی مل جاتی ہے ۔خوش ہونے کےلیے کوئی بھی وجہ کافی ہے ورنہ دکھ تو پہلے ہی اکہتر فیصد موجود ہی ہیں ۔چھوٹی خوشیاں بڑے دکھوں کے اثرات میں بھی کمی لانے کا باعث بنتی ہیں ۔ہمیشہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا اچھے دل سے استقبال کرو کیونکہ انہی کے پیچھے محبتوں کا سیلاب ہوتا ہے ۔خوشی کے بیرونی ذرائع بہت ہو سکتے ہیں مگر جو خوشی ہمارے اندر سے پھوٹتی ہے اس کامتوازن کچھ نہیں ہے ۔
کہتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں روح کو تازگی دیتی ہیں ،بڑی خوشیوں تک پہنچنے کا حوصلہ بخشتی ہیں ۔شکرگزاری کا جذبہ پیدا کرتی ہیں ،انسان چھوٹی چیز پر شکر کرتا ہے تو بڑی نعمت کے لیے زیادہ قدر دان بن جاتا ہے ۔چھوٹی چھوٹی خوشیاں رشتوں میں پیار بڑھاتی ہیں ،چھوٹے لمحوں کی خوشی بانٹنا دلوں کو جوڑ دیتا ہے ۔یہ چھوٹی خوشیاں انسان کو مایوسی کے اندھیروں سے بچاتی ہیں ورنہ انسان صرف غم اور محرومی میں جکڑا رہ جاتا ہے ۔یوں سمجھیں کہ چھوٹی خوشیاں وہ ستارے ہیں جو اندھیری رات کو جگمگاتے ہیں ۔اگر ہم انہیں نہ دیکھیں تو رات اندھیری لگے گی حالانکہ روشنی ہمارے سامنے ہوگی ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم ان خوشیوں کو محسوس نہ کریں ،ان جگنوں کی روشنی کو نہ دیکھیں اور ان پلک جھپکتے لمحوں کو نہ سنبھالیں تو زندگی واقعی ایک بوجھ بن جاتی ہے ۔چھوٹی چھوٹی خوشیاں بارش کی چھوٹی چھوٹی بوندوں کی طرح روز ہم پر برستی ہیں بس شرط یہ ہے کہ ہم میں انہیں محسوس کرنے کی صلاحیت ہو ۔چھوٹی خوشیوں تک رسائی نسبتا” آسان اور اختیار میں رہتی ہے جبکہ ان کا تواتر کے ساتھ ملتے رہنا نعمت خداوندی ہے جو انسان کو عام طور پر پرسکون رکھتا ہے ۔ایک بڑی خوشی کی نسبت چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے بار بار ملنے کے امکان بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ ہر بچے کی خوشی غبارہ خریدنا ہوتی ہے اور اسکے باپ کوخوشی اس کی فرمائش پورا کرنے میں حاصل ہوتی ہے لیکن چوراہے پر کھڑے غبارے بیچنے والے بچے کی خوشی اس کے غبارے کے بکنے میں چھپی ہوتی ہے ۔
آج ہمارامعاشرہ تنہائی ،اداسی ،مایوسی کا شکار ہے دنیاوی معاملات ،بےروزگاری ،غربت ، باہمی رشتوں میں دوریاں ،عدم برداشت کا تیزی سے بڑھتا رجحان ،ہماری خوشیوں کا دشمن ہے اور ہمارے چہروں کی اداسی ،پریشانی اور بےرونقی کا ذمہ دار ہے ۔ہم بڑی بڑی خوشیوں کے حصول کے لیے چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو نظر انداز کر کے دن بدن تلخ ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ زندگی میں ہمارے دکھ اپنی جگہ ضرور ہوتے ہیں مگر لمحہ بھر کی ایک چھوٹی سی خوشی اس دکھ کو قدرے کم ضرور کردیتی ہے ۔زندگی خوشگوار رکھنا چاہتے ہیں تو خوش رہیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں چھوٹی چھوتی خوشیوں پر ارتکاز رکھیں ۔آپ کو جلد زندگی خوبصورت اور خوشگوار لگنے لگے گی ۔یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہی بڑھ کر بڑی بڑی خوشیوں میں بدل جاتی ہیں کیونکہ خوشی کا بڑا یا چھوٹا ہونا ہمارے محسوس کرنے والے دل پر منحصر ہوتا ہے ۔قطرے بارش اور پانی میں بدلتے ہیں اور پانی دریا اور پھر سمندر بنتا ہے۔اسی زندگی کے سمندر میں چھوٹی چھوٹی مثبت لہریں بڑی خوشی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں ۔مایوسی کے گھپ اندھیروں میں یہی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے جگنو ہماری زندگی کے لمحوں میں بڑی روشنی بکھیرنے کا سبب بنتے ہیں ۔شرط یہ ہے کہ ہم صبر اور امید کا دامن تھامے ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو گرہن نہ لگنے دیں اور اس بڑی روشنی کے منتظر رہیں جو ہمارا مقدر ضرور بنے گی ۔