مفاہمت یا مزاحمت

روداد خیال ۔۔۔صفدر علی خاں

3

ہوشربا مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ پاکستانی قوم کو دلاسے دینے کی روایت ہر دور میں جاری رہی ،معیشت کی بحالی ہمیشہ ہر حکومت کی اولین ترجیح ٹھہری ،عوام کو ریلیف دینے کے وعدے بھی ہر بار دہرائے جاتے رہے ہیں مگر حکومتیں ہر بار قوم کو مایوس کرتی رہی ہیں ،حالات چاہے کچھ بھی رہے ہوں ،کوئی بھی حکومت عوامی توقعات پر پورا اترنے کے قابل قرار نہیں دی جاسکتی ۔ملکی تاریخ میں عوام کیساتھ سب سے بڑا دھوکہ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرکے لاکھوں افراد کو بے روزگار کر دینے پر سامنے آیا، 50لاکھ گھر غریبوں کو بانٹنے کی بات کرکے کچی آبادیوں کے مکینوں سے چھت چھین لینے کی واردات بھی انوکھی رہی ،اس پر معیشت کا بیڑہ غرق کرنے کیلئے سرتوڑ کوششیں ہوئیں ،پہلے تو آئی ایم ایف سے قرض لینے سے بہتر خودکشی قرار دی گئی اور پھر اسی حکومت نے کڑی شرائط پر عالمی مالیاتی ادارے سےکڑی شرائط طے کرلیں جن کے مضر اثرات کا خمیازہ مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت کو بھگتنا پڑ رہا ہے ،دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت نے ملکی معیشت کو استحکام دینے کی خاطر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔سال بھرسے شہباز حکومت صرف پہلے سے موجود مسائل کی گرد جھاڑنے میں ہی مصروف کار نظر آئی ہے ۔پاکستان مسلم لیگ کی مخلوط حکومت کو سابق حکومت سے ورثے میں ملنے والے مسائل کو حل کرنا کوئی آسان نہ تھا اس بار حکومت کے لئے سب سے اہم کام ملک کے مالیاتی نظام کی بنیادیں اکھاڑنے والوں کی سازشوں کا سامنا کرنا بھی ہے ۔بلاشبہ اس وقت ملکی
معیشت رفتہ رفتہ استحکام کی جانب گامزن ہے۔مالیاتی نظام کو درست ٹریک پر لانے کی خاطر سیاسی استحکام لانا بھی ناگزیر ہوتا ہے اسی لئے حکومت نے تمام تر خرابیوں کے باوجود سیاسی ڈائیلاگ کا آپشن ہر موڑ پر “اوپن”رکھنے کا اہتمام کیا ۔پاکستان میں سیاست میں ضد اور ہٹ دھرمی کو رواج دینے والوں نے سال بھر “مذاکرات”کے دروازے بند رکھنے کا بیانیہ ہی اپنائے رکھا ،اپوزیشن کے لئے حکومت کا ہاتھ سے نکل جانا اس قدر درد ناک رہا کہ نئی حکومت کو گرانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا گیا ،”سیاسی دشمنی” کو “ملکی دشمنی” کا ملبوس پہنانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا ۔اقتدار سے الگ ہونے پر دل برداشتہ کھلاڑی مخالف سیاسی میدان میں اترنے کی بجائے ریاست سے ہی ٹکرا گئے اور اسکے نتیجے میں 9مئی 2023برپا ہوگیا ۔خدا کا شکر ہے کہ ملک کو نقصان پہنچانے والے کردار بے نقاب ہوگئے ،قوم نے حب الوطنی کے دعویداروں کی حقیقت بھی دیکھ لی ،ان سب کے باوجودشہباز حکومت نے صبر وتحمل اور دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے “جرم کو سیاست “سے الگ رکھنے کیلئے قانونی راستہ اختیار کیا ۔مجرموں کیساتھ قانونی طریقے سے نمٹنے کا اہتمام کیا گیا اور سیاسی ڈائیلاگ کے دروازے کھلے رکھے گئے ۔ملکی مفاد کو ہر لحاظ سے مقدم رکھتے ہوئے معاشی ترقی کے سفر کو جاری رکھا گیا ہے چونکہ معاشی اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔اس لئے حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ سنجیدگی سے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ،اسی دوران کچھ ریاست سے ٹکرانے کی خواہش رکھنے والوں نے مذاکرات کے عمل کو سبوتاژکرنے کی خاطر پروپگنڈا شروع کردیا،دوسرا عدالت سے بانی چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف 190ملین پائونڈ کیس میں سزا سنائے جانے پر بھی اسی طرح کے ردعمل نے معاملہ سامنے آ رہا ہے ،اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو مشکوک بنانے کی خاطر دہرا معیار اپنانے کی روش نے بھی نیا موڑ لے لیا ہے ،حکومت کے دانشوروں نے اسے پی ٹی آئی کی” دو عملی “قرار دیا ہے ۔سیاسی بالغ نظری کا تقاضا تو یہی ہے کہ اگر ملکی مفاد میں سیاست دانوں کو ملکر ملکی مسائل پر قابو پانے کاموقع مل رہا ہے تو اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کی خوشحالی کے راستے کھولنے چاہئیں ۔مذاکرات کے عمل کو مشکوک بنانے سے گریز کرنا چاہئے ،ڈائیلاگ کا معروف مروجہ طریقہ کار موجود ہے اس سے انحراف کئی طرح کے مسائل کا باعث بنے گا ،بیک ڈور پراسیس کیساتھ اگر فرنٹ ڈور پراسیس بھی چلے گا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پھر کچھ نہیں چلے گا۔مفاہمت کے معنی ومفہوم ہی پھر “سازشی تھیوری “میں بدل جائیں گے ۔ان حالات میں معاملات پھر جوں کے توں رہیں گے ، پی ٹی آئی نے طویل مزاحمت سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا بالاآخر مفاہمت کی میز پر ہی آنا پڑا ہے اسکے باوجود اب پھر مفاہمت کے اس حالیہ عمل کو دہرے بیانیہ سے “مزاحمت “کا عمل بناکر سوائے مزید خرابی کے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا ۔موجودہ نازک موڑ پر حقیقی سیاسی استحکام ہی ہماری ضرورت ہے۔اس لئے سیاستدانوں کو چاہئیے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں !۔وسیع تر قومی مفاد میں ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے ملکر چلنے کا جذبہ لیکر آگے بڑھیں ،یہی ملکی معیشت کو استحکام دیکر ملک کو خوشحالی کی منزل پر لانے کا حقیقی راستہ ہے ۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.