پرچم جیسے لوگ، ہمارے ہیرو

61


یقین مانیں کہ جب ہم لوگ یہ فیصلہ کر لیں کہ جتنے خوبصورت ہمارے پرچم کے رنگ ہیں اور اتنے ہی خوبصورت ان رنگوں کی نمائندگی کرنے والے وہ لوگ ہیں
تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ہم ایسے ملک اور ایسی دھرتی کے باسی ہیں جہاں نفرت صرف آٹے میں نمک کے برابر ہے اور اس کے مقابلے میں محبت دودھ میں ملی اس شکر کی مانند ہے
جو دکھائی تو نہیں دیتی مگر اس کی شیرنی دودھ کو اور لذیذ بنا دیتی ہے ۔ دراصل یہ جملے میرے عزیز اہلِ قلم دوست اشوک کمار کے ہیں
جن سے مل کر کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہمارا دھرم اور دین الگ الگ ہے ،اس فضا میں میں سانس لیتا ہوں جس میں اشوک کمار لیتا ہے۔
اس دوکان سے میں چیزیں خریدتا ہوں جہاں سے وہ خریدوفروخت کرتا ہے۔ جب میں آفتاب جاوید کی کتاب ’’گیان‘‘ پڑھ رہا تھا مجھے ان کے چھوٹے چھوٹے جملوں میں بہت گہری باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں
جیسے وہ ایک گیان میں کہتا ہے۔ ’’یہاں خاموشی تلاوت کرتی ہے۔ یہاں بولنا منع ہے اسی طرح اگر تم حسد اور نفرت کی آگ میں جل رہے ہو تو پھر تمہیں کسی جہنم میں ڈالنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
مجھے آج تک آفتاب جاوید میں حسد کی بو نہیں آئی، کبھی اس بات کا مسئلہ بھی نہیں دیکھا کہ مشاعرے میں مجھے کس جگہ اور کس مقام پر بلایا گیا۔
حلقہ ارباب ِ ذوق ہو یا انجمن ترقی پسند مصنّفین کے اجلاس ہر جگہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہم نے ایسی پرتشدد روایات ڈال دی ہیں کہ ہم کسی کے لباس کو پسند نہیں کرتے تو اس کو مارنے پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ اگر کسی کا جملہ پسند نہیں تو ہم منہ سے آگ کے شعلے اگلنے لگتے ہیں۔
ہمیں آج کے دور میں آفتاب جاوید جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ چانڈیو انور عزیز جیسی خوبصورت شخصیت کی ضرورت ہے جو نفرت کی بجائے محبت اور امن کا درس دیتے ہیں
مجھے چانڈیو انور عزیز کی یہ بات بہت بھلی لگی جب انہوں نے کہا کہ میں سندھ دھرتی کا بیٹا ہوں مگر جب میں پنجاب میں آیا تو میں نے اپنے آپ سے کہا کہ مجھے اپنے کسی دوست کا نمبر دے دیں جن کی جان پچھان ہو تا کہ مجھے وہاں جا کر اجنبیت محسوس نہ ہو ان کے والد نے ایک تاریخی جملہ کہا جس میں وہ بات تھی جس کی آج ہمیں کتنی ضرورت ہے۔ انور چانڈیو نے کہا کہ بیٹا وہاں کے لوگوں سے ان کی زبان میں بولنے کی کوشش کرنا آپ ان کے دلوں میں گھر بنا لیں گے۔ آج چانڈیو انور عزیز پنجابی کے سبھی حلقوں میں ایک معتبر نام ہے۔’’پرچم جیسے لوگ‘‘ کی کتا ب میں ان ہیرو ان شخصیات کا تذکر ہ ہے جنہیں عام لوگ نہیں جانتے وہ کسی ادبی حلقے یا کسی فلم، ٹیلی ویژن کا نام نہیں مگران کی شخصیت کے حوالے سے معتبر ہے کہ انہوں نے رنگ،نسل،مذہب اور زبان سے ماورا ہو کر اس ملک کے وہ کردار بنے ہیں جن کی وجہ سے بین المذاہب ، ہم آہنگی کی تحریک مضبوطی ہوئی ہے۔ یہ وہ کردار ہے جنہوں نے اپنے عمل سے قائداعظم کے پاکستان کا حقیقی نقشہ دیکھایا ہے۔ چوہدری فضل دین ، حاجی محمد علی اور ٹینا انہیں کرداروں نے پرچم کے رنگوں کے مطابق پاکستان کی ترقی میں اپنا مثبت کردار نبھایا ہے۔ ’’پرچم جیسے لوگ‘‘ دراصل پاکستان کا وہ چہرہ ہے جسے دنیا میں دیکھایا گیا ہے اس کی گونج بڑے بڑے ایوانوں میں بڑے بڑے گرجوں میں سنائی دی ہے۔ جس معاشرے میں ایک خاتون کو اس لیے حراساں کیا گیا کہ اس نے عربی رسم الخط کے الفاظ میں کپڑے کیوں پہنے۔ جہاں ہماری سوچ نفرت کی چنگاری کا کام کرتی ہے وہاں ’’پرچم جیسے لوگ‘‘ پھولوں کا وہ گل دستہ بن کر خوشبو بکھیرتا ہے۔
ہمارے اردگرد روز ایسی کہانیاں رونما ہوتی ہیں جسے ہم درگزر اور غیرضروری سمجھ لیتے ہیں۔ ان پر غور نہیں کرتے ہمارے گھر کے قریب ہمارے محلے میں، ہمارے دفتر میں حتیٰ کہ ہر جگہ چوہدری فضل دین جیسے کردار لیں گے۔ ’’پرچم جیسے لوگ‘‘ ملیں گے مگر ہماری آنکھ انہیں دیکھنے سے قاصر رہتی ہے جس دن ہم نے پرچم کے رنگوں کو زندگی کے حقیقی رنگوں میں ڈھونڈ لیا اس دن یہ پاکستان محبت کا گہوارہ بن جائے گا۔ آج دنیا بھر میں کہیں اقتدار کی جنگ لڑی جا رہی ہے تو کہیں طاقتور کو کمزور کرنے کی لڑائی لڑی جا رہی ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کو برداشت کرنا بند کردیا ہے۔ ایک دوسرے کو عزت دینی چھوڑ دی ہے اگر اس وقت پاکستان کو اور اس معاشرے کو ضرورت ہے تو صرف ایسے شاعروں، ادیبوں اور اہل قلم کی جو معاشرے کو اس نفرت کی آگ سے نکالے اور آفتاب جاوید کے خوبصورت گیان کے مطابق زندگی گزارنے کے عمل سے جڑ جائے۔
’’پرچم جیسے لوگ‘‘ میں یاسمین حمید کہتی ہیں ’’پیدا ہونے والے منفی واقعات تو ہم سنتے رہتے ہیں اور انہیں نشر بھی بہت کیا جاتا ہے لیکن اسی معاشرے میں انہیں لوگوں کے درمیان خوبصورت جذبوں اور مثبت رشتوں کا تذکرہ کہیں نہیں ہوتا یہ مذاہب، ہم آہنگی پر مبنی کہانیاں اپنی نوعت کی منفرد کہانیاں ہیں ،اندھیرے میں دھوپ کے ٹکڑے کی طرح ہے۔آفتاب جاوید کی یہ کہانیاں معاشرے کی وہ کہانیاں ہیں جو ہمارے درمیان رونما ہوتی ہیں اور ہم سرسری نظر ڈالتے درگزر کر دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرہ کے وہ ہیرو جنہوں نے صرف انسانیت کی مد میں لوگوں سے محبت کی اور اس محبت کو کم نہیں ہونے دیا جنہیں کسی تعریفی کلمات کی قطعاً ضرورت نہیں ،کوئی لالچ نہیں دراصل یہ لوگ ہیں جو صوفیاء کے پیغام کو نئی نسل تک لے کر جا رہے ہیں کسی بھوکے کو روٹی دیتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ اس کے بدلے میں مجھے کیا ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کی قبریں منور ہیں ان کے گھروں کے دروازے کھلے ہیں۔ جہاں دن رات نور کی بارش ہوتی ہے جہاں سے لوگ اپنی مرادیں پوری کرتے ہیں۔ نیبوں کے کام کو آج بھی جاری رکھنے والے زندہ و جاوید ہیں۔ اس میں ضروری نہیں کہ کوئی مسلم ہو، کوئی سکھ ہو، یا کوئی ہندو دھرم اور دین سے ماورا لوگ صرف انسانیت کی بات کرتے ہیں۔ آفتاب جاوید نے بھی اسی راستے کو اپنا راستہ بنایا ہے۔ ان کی منزل بھی بلھے شاہؒ کے فلسفے اور سچل سرمستؒ کے اقوال میں ہے۔ ان کے اقوال اور گیان سننے والے کو سوچنے پر مجبور کرتاہے۔
شہر بانو نقوی صاحبہ نے جس بہادری اور جرأت کا مظاہرہ کیا اس پر ملک کا ہر فرد نازاں ہے ہمارے ہیرو ایسے لوگ ہونے چاہئیں جنہوں نے ملک کو سلامتی اور امن کے لیے کوششیں کیں اور جان کی بازی لگانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹے۔
تو نے روشن کر دیا ہے نام پاکستان کا
جو رگ و پے میں ہے تیرے ان اجالوں کو سلام
بچ گیا ہے اک بڑے فتنے سے شہر آگہی
شہر بانو تیرے تابندہ خیالوں کو سلام
اقبال راہی نے اپنے اشعار سے اس بہادر خاتون کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اقبال راہی سے منظوم خراج تحسین پیش کرکے اہل ادب کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔

تحریر: مشتاق قمر

16/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-10-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.