ریڑی بازار غریب دوست فیصلہ لیکن تجاوزات کے خلاف رسمی جعلی کاروائیاں
ملک سلمان maliksalman2008@gmail.com
تجاوزات پورے پاکستان کا مسئلہ ہے لیکن سوائے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے کوئی بھی تجاوزات کے خاتمے کیلئے کام نہیں کررہا۔
مین بازاروں اور گلیوں میں غیر قانونی پارکنگ، سڑک پر بورڈ لگا کر اور پتھر رکھ کر ٹریفک میں خلل پیدا کرنے والوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں ہو رہی ؟
وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے پنجاب بھر خاص طور پر لاہور میں ایک ترتیب میں ریڑی بازار بنانے کی ہدایات کیں۔ ریڑی بازار بن بھی گئے لیکن ان باترتیب ریڑی بازار کے بالکل سامنے اور ارد گرد پرانی ریڑیاں بیچ سڑک راستہ روکے کاروبار کر رہی ہیں اور انکو قانون کا ذرا ڈر نہیں کیونکہ انکو پتا ہے کہ قانون کی قیمت وہ میونسپل افسران کو نقد دیتے ہیں۔ تجاوزات مافیا کے ساتھ ساتھ تجاوزات کی سرپرستی کرنے افسران کے خلاف قانونی کاروائی بھی ناگزیر ہے۔ تجاوزات لگانے اور لگوانے والے دونوں کو جیل بھیجا جائے تاکہ قانون کا ڈر اور سٹیٹ کی رٹ بحال ہو۔
میرے کالمز میں تجاوزات کے خاتمے کی بجائے سرکاری افسران کی تجاوزات مافیا کی پشت پناہی کرنے کی نشان دہی پر وزیراعلیٰ پنجاب میڈم مریم نواز شریف نے 3جنوری کو ایک دفعہ پھر سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیتے ہوئے زیرو ٹالرینس کی ہدایات دیں۔
آج دسواں دن ہے اور تجاوزات میں بامشکل پانچ فیصد کمی ہوئی۔ آج 13جنوری کو بھی پنجاب میں بدترین تجاوزات ہیں جعلی فوٹو سیشن کے بعد سب کچھ واپس وہیں کا وہیں آچکا ہے۔
تجاوزات کی کمائی ڈائریکٹ اور روزانہ کی بنیاد پر افسران کی جیبوں میں جاتی ہے اس لیے میونسپل کمیٹی اور اسسٹنٹ کمشنرز وزیراعلیٰ کے احکامات پر عمل درآمد کرکے اپنی حرام کمائی پر کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
ڈپٹی کمشنر لاہورکی دیانتداری اور تجاوزات کے خلاف زیرو ٹالرینس کی پالیسی میں کوئی شک نہیں۔ وہ صبح سے لیکر رائے گئے تک لاہور کی صفائی اور بہتری کیلئے سڑکوں پر ہوتے ہیں لیکن المیہ ہے باقی اضلاع کے طرح لاہور کے اسسٹنٹ کمشنرز بھی تجاوزات کے خلاف موئثر کاروائی کی بجائے چند مقامات کی ویڈیوز بنا کر باقی نوے فیصد تجاوزات کی کمائی کی حصہ داری سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے۔ لاہور کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ صوبائی دارلحکومت کو رول ماڈل ہونا چاہئے لیکن لاہور کی خوبصورتی کو ان کرپٹ اسسٹنٹ کمشنرز، میونسپل کارپوریشن اور ایل ڈی اے نے بدصورتی میں بدل دیا ہے۔ اپنی حرام کی کمائی کھانے کیلئے تاریخی اہمیت کے حامل لاہور کو لاقانونیت کی بدترین تصویر بنانے والے اسسٹنٹ کمشنرز، میونسپل کارپوریشن اور ایل ڈے اے افسران اور اہلکاروں کو عہدوں سے ہٹانے اور جیل بھیجے بن گزارا نہیں۔
پنجاب کے ڈپٹی کمشنرز کی اکثریت تجاوزات کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے لیکن صوبائی دارلحکومت لاہور سمیت پنجاب بھر میں سوائے چند ایماندار اور فرض شناس افسران کے کوئی اسسٹنٹ کمشنر بھی تجاوزات کے خاتمے میں سیریس نہیں۔ لاہور کی ایک تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر کسی دوسرے ضلع کے اسسٹنٹ کمشنر کو مشورہ دے رہے تھے کہ دو تین اسسٹنٹ کمشنرز کے سرکاری ڈالوں پر نقاب پوش افراد کے حملے کی ویڈیوز بنوا کر تجاوزات کے خلاف آپریشن رکوایا جائے ورنہ تجاوزات کی کمائی کے بن بھوکے مرنے والی بات ہے،پلاٹوں کی قسط تو تجاوزات سے ہی نکل رہی ہیں۔ مطلب انہوں نے طے کرلیا ہے اے سی شپ میں ہے کروڑوں اور اربوں روپے کے پلاٹ بنا لینے ہیں۔
ڈی جی انٹی کرپشن انکے خلاف ایکشن کیوں نہیں لے رہے؟
پنجاب کے اسسٹنٹ کمشنرز میں سے بہت ساروں کی سوچ کریمنل ہونے کی وجوہات ہیں۔ دو سال سے زائد کا عرصہ ہونے والا ہے اسسٹنٹ کمشنرز، اے ڈی سی آر اور پولیس افسران کی گاڑیوں کو نمبر پلیٹ نہیں لگائ گئی یہ نئے نویلے بچے بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں پر کسی بھی احتساب کے ڈر سے بالا تر ہو کر مشکوک حرکتیں کرتے ہیں۔ کتنے ہی سرکاری ڈالوں نے عام شہریوں کو ہٹ کیا انکی گاڑیوں کو نقصان پہچایا، شہریوں کو زخمی کیا لیکن اس لیے نہیں پکڑے گئے کہ گاڑی کا کوئی نمبر نہیں تھا وزیراعلیٰ پنجاب میرٹ پر کمپرومائز نہیں کرتیں لیکن افسران کو بنا نمبر پلیٹ گاڑیاں چلاکر قانون شکنی کی اجازت کون دے رہا ہے؟
پنجاب کو بنانا ریپلک بنانے والے مذکورہ افسران کو جیل کیوں نہیں بھیجا رہا؟
پہلے پہل سول بیوروکریسی میں اچھے پڑھے لکھے اور خاندانی لوگ آیا کرتے تھے، عام سرکاری ملازمین کی نسبت سی ایس ایس اور پی ایم ایس افسران کا رویہ اور کردار قابل تقلید و تعریف ہوتا تھا۔
سنئیر افسران کی رات کی بیٹھک سنئیر صحافیوں اورادیبوں کے ساتھ ہوتی تھی اس لیے نہ صرف وہ حالات و واقعات سے باخبر ہوتے تھے بلکہ اہل قلم افراد کی صحبت سے اپنی شخصیت و کردارمیں نکھار لاتے تھے۔ جبکہ نئے افسران اپنے جیسی بچگانہ فہم و فراست کے جوانوں کے ساتھ رات گئے والی محافل میں مگن ہوتے ہیں اور انتہائی تفاخر سے بتا رہے ہوتے ہیں کہ تیرا یار اے سی /اے ایس پی لگ گیا ہے جو مرضی کرے۔
وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے سوشل میڈیا سیلف پروجیکشن پر پابندی کے نوٹیفیکیشن کے باوجود نئے افسران کی اکثریت سیلفی سٹار اور ٹک ٹاکر بنے ہوئے ہیں۔انکی نت نئی اوچھی حرکتوں سے بیوروکریٹ گالی بنتا جا رہا ہے۔
اگرچہ لاقانونیت اور لوٹ مار میں ملوث مذکورہ نوجوان افسران کی تعداد کم ہے لیکن اس کرپٹ اقلیت نے فرض شناس اکژیت کا امیج بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔