کہتے ہیں کہ دستک کی قدر کیجیے یہ گھروں کو ویران نہیں ہونے دیتی ۔دستک صرف دروازوں پر ہی نہیں دی جاتی بلکہ دستک یہ تو دلوں اور ذہنوں پر بھی دی جاتی ہے اور بار بار دی جاتی ہے ۔ ہماری امی جان کہا کرتی تھیں کہ دستک کی آواز ہی یہ طے کردیتی ہے کہ کون آیا ہے ؟ ہم نے دیکھا کہ ان کے ننانوے فیصد اندازے اور آئیڈیے ہمیشہ ٹھیک ہوا کرتے تھے ۔وہ ہر دستک سن کر کہتی تھیں جاؤ جاوید ! تمہارے فلاں دوست آیا ہے یا یہ کہ یہ دستک تو بھائی شریف کی لگ رہی ہے ؟ ذرا جلدی جاو ٔ دودھ والا آیا ہے یا یہ دستک تو دھوبی کی لگ رہی ہے وغیرہ کسی نامعلوم دستک کو سن کی پہلے چہرے کھل اٹھتے تھے کیونکہ دستک کسی مہمان کے آنے کی نوید بھی سمجھی جاتی تھی اور مہمان کو اللہ کی رحمت کہا جاتا تھا ۔دروازے پہ دستک جب گھنٹی اور بیل میں بدلی تو مہمان زحمت ہونا شروع ہو گئے اب گھنٹی سن کر اکثر آواز آتی ہے کہ یہ اس وقت کون آگیا ہے ؟یار کیا مصیبت ہے ہر وقت گھنٹی ہی بجتی رہتی ہے ۔اگر مہمان کی گھنٹی کا ندازہ ہو تو چہرے کی رنگت ہی بدل جاتی ہے جیسے کوئی مصیبت نازل ہو گئی ہو ۔کہتے ہیں کہ مہمان اپنا رزق اپنے ہمراہ لاتا ہے اور واپسی پر میزبان کے گھر کی ساری بلائیں بھی ساتھ لے جاتا ہے۔یہ دستک کی ناقدری ہمارے رزق کو کھا ۓ جاتی ہے ۔یوں دستک کی یہ داستان دروازہ کی کنڈی بجانے سے گھنٹی اور بیل تک اور پھر ڈیجیٹل دستک پہنچ گئی ہے ۔جدید دور میں دستک کا تصور ایک وسیع اور علامتی معنویت اختیار کر چکا ہے ۔ماضی میں دستک دروازے پر دی جانے والی سادہ سی جسمانی کاروائی کا نام تھا جو ملاقات یا رابطے کی درخواست کے طور پر کی جاتی تھی ۔لیکن جدید دور میں یہ تصور ایک وسیع تر ثقافتی ،سماجی اور ڈیجیٹل معانی کا حامل بن چکا ہے ۔ڈیجیٹل دستک کے بارے میں مجھے پہلی بار بنک ملازمت کے دوران سٹاف کالج ٹرینگ میں مشہور بینکار ا ور ہماری استا دمس اکرم خاتون نے اسی کی دہائی میں بتایا تھا کہ وقت کی تیز رفتاری کا تقاضا ہے کہ ڈیجیٹل رابطے کئے جائیں ۔یہ فون ،موبائل ، ای میل ،میسج ،نوٹیفیکیشن ،واٹس ایپ ،فیس بک کے ذریعے پیغام لوگوں کو بغیر جسمانی موجودگی کے بھی اپنی موجودگی اور ضرورت کا احساس دلاتے ہیں ۔پیغام رسانی کا یہ تیز ترین ذریعہ ڈیجیٹل دستک ہی تو ہوتی ہے ۔جدید یت کے چیلنجز خود ایک دستک ہیں جو لوگوں کو نئی مہارتیں سیکھنے ،نئے راستے تلاش کرنے اور تبدیلی کو قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ڈیجیٹل دستک” ایک اصطلاح ہے جو عام طور پر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز یا ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی کام کی شروعات یا کسی سے رابطہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ اصطلاح مختلف سیاق و سباق میں استعمال ہو سکتی ہے، جیسے ڈیجیٹل مارکیٹنگ: کسی پروڈکٹ یا سروس کی تشہیر کے لیے آن لائن ذرائع استعمال کرنا۔ے سوشل میڈیا پر رابطہ: کسی شخص یا ادارے سے آن لائن رابطہ قائم کرنا۔. ڈیجیٹل تبدیلی (Digital Transformation): روایتی کاروباری عمل کو ڈیجیٹل ٹولز کے ذریعے بہتر بنانا۔
ایک زمانے میں خطوط ہی رابطے اور پیغام رسانی کا واحد ذریعہ ہوا کرتے تھے دوسری جنگ عظیم میں ہمارۓ دادا جان میرے چچا نباض خان کو محاذ جنگ پر خطوط لکھتے تھے مگر جواب کبھی نہ ملتا جب وہ چھٹی پر گھر آۓ تو پوچھا کہ تمہیں خطوط نہیں ملتےہیں ؟ یا پھر تم جواب نہیں دیتے تو انہوں نے اپنے بیگ سے سارے خطوط نکال کر دکھاۓ جو اکثر لفافے انہوں نے کھولے ہی نہیں تھے ۔شاید جنگ کے دوران کھولنے اور پڑھنے کا موقعہ ہی نہیں ملا تھا اور جواب دیا “خط نہ آۓ تو سمجھو خریت ہے ” اور اگر “خط آجاۓ تو بھی سمجھو خریت ہے “خط آنا اور نہ آنا دونوں زندگی اور خریت کی علامت ہوا کرتے تھے ۔جس خط میں کوئی خریت کی خبر نہ ہوتی تو اس لفافے کے ایک کونے کو پھاڑ دیا جاتا تھا یا پھر بیرنگ بھجوایا جاتا تھا ۔
ایسے ہی چند دن قبل میں سوشل میڈیا پر یہ کہانی پڑھ کر بڑا متاثر ہوا وہی منقول ہے کہ “ایک لڑکا ایک گھر میں اخبار پہنچانے جایا کرتا تھالیکن ایک دن اسے پتہ چلا کہ اس گھر کا تو لیٹر بکس بند ہے۔اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک بزرگ آدمی نےدھیرے دھیرے قدموں کے ساتھ دروازہ آہستہ سے کھولا۔ لڑکے نے پوچھاجناب، آپ نے اپنا لیٹر بکس کیوں بند کیا ہوا ہے؟ انہوں نے جواب دیا میں نے جان بوجھ کر اسے بند کیا ہےاور مسکراتے ہوئے انہوں نے کہامیں چاہتا ہوں کہ تم روزانہ میرے دروازے پر اخبار لے کر آؤ اور میرا دروازہ کھٹکھٹاؤ یا گھنٹی بجاؤ اور مجھے ذاتی طور پر اخبار دو۔ لڑکے کو حیرت ہوئی اس نے جواب دیا کہ یقیناًلیکن اس سے تو دونوں کے لیے مشکل ہوگی اور وقت کا ضیاع ہوگا۔ انہوں نے کہا کوئی بات نہیں ہے میں تمہیں ہر ماہ دروازہ کھٹکھٹانے کی فیس اضافی دوں گا۔ پھر انہوں نے التجا بھری نظروں سے کہا اگر کبھی تم نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کوئی جواب نہ ملاتو برا ہ کرم پولیس کو اطلاع دینا۔ بزرگ کی درخواست سن کر نوجوان اخبار فروش چونک گیا اور پوچھا کیوں جناب ایسا کیوں ہے ؟ انہوں نے جواب دیامیری بیوی انتقال کر چکی ہےمیرا بیٹا ملک سے باہر ہےاور میں یہاں اکیلا رہتا ہوں۔ کون جانے کب میری موت آ جائے؟ اس لمحے اخبار فروش نوجوان نے بوڑھے آدمی کی آنکھوں میں دھندلاہٹ اور نمی دیکھی۔ انہوں نے مزید کہامیں کبھی اخبار نہیں پڑھتا۔ میں نے اسے صرف اس لیے خریدتا ہوں تاکہ دروازہ کی دستک یا گھنٹی بجنے کی آواز سن سکوں اور ایک مانوس چہرہ دیکھ سکوںاور کچھ لمحے خوشی کے گزار سکوں۔ انہوں نے اپنے ہاتھ جوڑے اور کہابیٹابراہ کرم ایک احسان کرو۔ یہ میرے بیٹے کا نمبر ہے جو ملک سے باہر ہے۔ گر کسی دن میں دروازہ نہ کھولوںتو براہ کرم میرے بیٹے کو اطلاع دینا۔ “کبھی کبھی آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ لوگ روز سویرے آپ کو واٹس ایپ پر سلام دعا کے کیوں پیغامات بھیجتے رہتے ہیں ؟حقیقت میں ان کی صبح کی سلام دعا بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی بند دروازے کی گھنٹی بجانا ہوتا ہے ۔ شاید یہ ایک جدید طریقہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی خیریت معلوم کریں اور اپنے پیار ،محبت ،نیک خیالات اور تعلق کا اظہار کریں۔ کسی ایک دن اگر آپ کو ان کا صبح کا پیغام یا شیئر کیا گیا مضمون نہ ملےتو ہو سکتا ہے کہ وہ ٹھیک نہ ہوں یا ان کے ساتھ کوئی حادثہ ہو چکا ہو۔ براہ کرم اپنے دوستوں اور خاندان کا خیال رکھیں اور اپنی اس ڈیجیٹل دستک کو جاری رکھیں ۔محبتوں کا یہ حسین سفر اپنی زندگی میں بھی جاری رکھیں اور اپنے بزرگوں اور والدین کی قبروں پر جاکر دعا وں کی دستک دینا بھی کبھی نہ بھولیں ۔
ہمارے اباجی مرحوم کہا کرتے تھے کہ دستک تو ایک نعمت ہوتی ہے اللہ جب کسی کو عزت دینا چاہتا ہے تو لوگوں کو اس سے کام ڈال دیتا ہے اور لوگ اس کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں ۔دستک ایک امید کا نام ہے جو کسی کے دروازے یا دل پر دۓ کر آسانی کی تلاش اور کسی اچھے وقت کی شروعات ہوتی ہے ۔اباجی کہتے تھے کہ زندگی میں مواقع اور تبدیلی کی دستک بڑی اہم ہوتی ہے اسےجاننا اور پہچاننا چاہیے اور ضائع نہیں کرنا چاہیے اس دستک پر ہمارا جواب دینا ہماری زندگی بدل دیتا ہے۔وہ کہتے تھے کہ معاشرتی مسائل اور خوشی کے لمحات بھی ہمارے دلوں پر دستک دیتے رہتے ہیں ۔یہ دور انسانی رابطوں میں مختلف قسم کی دستکیں متعارف کرا رہا ہے ۔جیسے ایک کتاب ،تصویر یا تقریر آپ کے ذہن پر دستک دیتی ہے اور نئے خیالات پیدا کرتی ہے ۔اسے ذہنی دستک کہا جاتا ہے ۔کسی تحریک یا مہم کا آغاز کسی مسئلے پر معاشرے کو جگانے کے لیے دستک دے کر بیدار کرنا سماجی دستک ہوتی ہے ۔اسی طرح علامتی اور روحانی دستک کا تصور اندرونی شعور یاوجدان کو جگانے کا استعارہ بھی بھی بن چکا ہے مثلا” کسی روحانی یا فلسفیانہ تجربے کو روحانی دستک سمجھا جا سکتا ہے جو انسان کو اپنے اندرجھانکنے پر مجبور کردۓ یا جو اسے اچھائی کی جانب مائل کر دے ۔جدید دور میں دستک کا تصور جسمانی اور علامتی دونوں سطحوں پر موجود ہے ۔یہ ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہین جہاں رابطے اور تعلقات کئی نئی جہتوں میں تقسیم ہوتے جا رہے ہیں ۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا نے ڈیجیٹل دستک کے اس عمل کو مزید تیز کردیا ہے لیکن لوگوں نے اسے منفی استعمال کرکے افواہ سازی اور پروپیگنڈا کے غلط اور جھوٹی خبروں اور اطلاعات کے ذریعے متنازعہ بنا دیا ہے جو معاشرے میں نفرت ،بدامنی اور تخریب کا باعث بن رہا ہے ۔یہ افواہ سازی اور جھوٹ پھیلانے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو برا ئی کی جانب بھی دھکیل رہا ہے ۔ ڈیجیٹل دستک کے اس منفی سلسلے کی روک تھام اور انسدا د وقت کے ساتھ ساتھ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا جارہا ہے ۔ڈیجیٹل دستک کی قدر اور اس کے تقدس کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کا مثبت اور ذمہدارنہ استعمال کیا جاۓ ۔یہ ہمارا قومی فریضہ بھی ہے اور دینی احکامات بھی ہیں ۔
پڑھو تو امن پڑھو اور لکھو تو خیر لکھو
ورق ورق پہ نہ تم شور وشر کی بات کرو