سیاست میں گالی گلوچ کا بڑھتا ہوا رجحان جمہوریت کے ماتھے پر داغ

تحریر ۔۔۔۔۔۔سید عمران سلیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1

پاکستان میں سیاست کبھی عوامی خدمت کردار اور اصولوں کی پہچان ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ دھونس دھمکی اور گالی گلوچ کا میدان بن چکی ہے اختلاف رائے اب دلیل سے نہیں بلکہ زبان درازی سے ظاہر کیا جاتا ہے جہاں ایک وقت تھا کہ سیاسی رہنما ایک دوسرے سے شدید نظریاتی اختلاف کے باوجود شائستگی سے گفتگو کرتے تھے وہیں اب ایسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے جو کسی محفل میں بیٹھے مہذب انسان کو شرمندہ کر دیں
تاریخی پس منظر
1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو اور ولی خان جیسے سیاستدانوں کے درمیان سخت نظریاتی اختلافات رہے مگر ان کے درمیان شائستگی اور پارلیمانی زبان کا لحاظ ہمیشہ موجود رہا وہ تنقید کرتے تھے مگر تہذیب کے دائرے میں لیکن 2000 کے بعد کے سیاسی ماحول میں جو زبان استعمال ہونے لگی اس نے سیاست کی توقیر کو سخت نقصان پہنچایا
حالیہ واقعات کی جھلکیاں
عمران خان اور مریم نواز کا ایک دوسرے پر بیانیہ وار تحریک انصاف کے جلسوں میں عمران خان نے بارہا مریم نواز کے خلاف سخت زبان استعمال کی جس پر ن لیگ کی قیادت نے بھی بھرپور جواب دیا عوامی سطح پر یہ تقاریر زیادہ جلسوں کی رونق تو بنیں مگر معاشرتی اقدار کو شدید زک پہنچی
آصف زرداری پر تنقید عمران خان نے آصف زرداری کو جلسوں میں ڈاکو اور کرپٹ جیسے القابات سے یاد کیا جس پر پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی جوابی وار میں انتہائی سخت اور ذاتی حملے کیے گئے شہباز شریف اور آصف علی زرداری کا ایک دوسرے کے خلاف جلسے جلوسوں میں سخت الفاظ کا استعمال
ٹی وی ٹاک شوز میں بدتمیزی سیاستدانوں کے درمیان گالی گلوچ اب صرف جلسوں میں نہیں بلکہ براہ راست نشریاتی مباحثوں میں بھی سننے کو ملتی ہے کئی مواقع پر سیاستدان آپے سے باہر ہو کر مخالفین پر نہ صرف الزامات لگاتے ہیں بلکہ غیر پارلیمانی زبان بھی استعمال کرتے ہیں جس کی مثالیں مختلف نیوز چینلز پر دیکھی جا سکتی ہیں ضمنی الیکشن این اے 175 مظفر گڑہ میں بھی یہ بے ضابطگیاں عروج پر ہیں جو سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں
نوجوان نسل پر اثرات
سیاست میں گالی گلوچ اور الزام تراشی کے کلچر نے نوجوانوں کو بھی متاثر کیا ہے سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگز ایک دوسرے پر دن رات بدزبانی کے تیر برساتے ہیں یہ کلچر نہ صرف نفرت کو فروغ دیتا ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی تباہ کر رہا ہے
عدالتوں کی توہین اور اداروں پر الزامات
سیاسی زبان اب صرف مخالف رہنماؤں تک محدود نہیں رہی، بلکہ اعلیٰ عدلیہ، فوج، الیکشن کمیشن اور دیگر قومی ادارے بھی نشانہ بن چکے ہیں عدالتوں کے فیصلوں پر طعن و تشنیع الیکشن کمیشن پر جانبداری کے الزامات اور افواج پاکستان پر اشاروں کنایوں میں تنقید ایک خطرناک سیاسی رویہ بن چکا ہے
حل کیا ہے؟
سیاسی تربیت کی ضرورت ہر سیاسی جماعت کو اپنے کارکنان اور رہنماؤں کی اخلاقی تربیت کرنی چاہیے تاکہ سیاسی مباحثہ دلیل اور ادب پر مبنی ہو
الیکشن کمیشن کا کردار الیکشن کمیشن کو ایسی زبان استعمال کرنے والے امیدواروں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے
میڈیا کی ذمہ داری میڈیا کو ایسے پروگرامز کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو صرف نفرت اور گالم گلوچ پر مبنی ہوں
سیاست عبادت ہے گالی نہیں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے، ذاتی حملے اس کا زوال ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کیسی سیاسی روایات اگلی نسل کو منتقل کر رہے ہیں؟ اگر یہی روش رہی تو آنے والی نسل سیاست کو ایک گندہ کھیل ہی سمجھے گی، نہ کہ خدمت کا میدان

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.