اور کافری کیا ہے؟
روداد خیال ۔۔۔صفدر علی خاں
امریکی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر پاکستان میں اس وقت نئی بحث چھڑ گئی ہے ۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عجیب وغریب تنازع کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اب ایک سیاسی جماعت کی جانب سے سوشل میڈیا پر انتہائی گمراہ کن پروپیگنڈےکی یلغار ہوئی ہے،جس نے ملک کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کے خدشات پر مبنی کئی طرح کے شوشے چھوڑ کر حالات میں تنائو پیدا کررکھا ہے ۔دنیا کے کسی بھی کمزور ترین ملک کے اندورنی معاملات میں کوئی بھی طاقتور ترین ملک اب کسی بھی طرح سے مداخلت نہیں کرسکتا ،وہ زمانے لد گئے جب کوئی کسی ملک پر دبائو ڈال کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا تھا آج جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ رابطے کے اس جہان میں کوئی بھی ایسا اقدام بین الاقوامی میڈیا کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتا بلکہ کیمرے کی آنکھ ہر طرح کی سرگرمی کو دیکھ رہی ہے۔ان حالات میں ملکوں کی آزادیاں اور خودمختاریاں سلب کرنا ممکن نہیں رہا ۔اس پر اب امریکہ کے حالیہ الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر عمران خان کی رہائی کو جوڑنے والے درحقیقت احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اگر واقعی امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بچپن میں عمران خان کے ساتھ کھیل کود کر جوان ہوئے ہیں یا انکا یارانہ بڑا اٹوٹ رہا ہے تو بھی وہ زیادہ سے زیادہ انکے ساتھ جیل میں کچھ نرمی برتنے کی درخواست ہی کرسکتے ہیں اور اس درخواست کو قبول یا رد کرنے کا اختیار رکھنے والے صاف کہہ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے امریکی صدر منتخب ہونے سے تعلقات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔امریکا دیرینہ دوست اور شراکت دار ہیں ، دونوں ملکوں کے تعلقات اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر مبنی ہیں۔پاکستانی دفتر خارجہ کے اس اعلامیے نے سب کچھ واضح کرکے رکھ دیا ہے اسکے باوجود سوشل میڈیا پر اس حوالے سے فضول پروپگنڈے نے امریکی مداخلت کے غلغلے سے ماحول کو پراگندہ کرکے رکھ دیا ہے ،عالمی مبصرین نے بھی اس معاملے پر کہا ہے کہ ٹرمپ حکومت آنے سے پاک امریکہ تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے متعلق قیاس آرائیاں غلط ہیں۔دنیا میں کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کسی کو اختیار نہیں ،بلکہ اس طرح کی حماقت کو ہی سفارتی آداب کی دھجیاں اڑانے کے مساوی قرار دیا جاتا ہے اس لئے دنیا کے مہذب معاشروں کی سیاست میں اس طرح کی فضولیات کی کوئی گنجائش ہی نہیں تو پھر ایسا شور کرنا محض وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔اس معاملے پر دفتر خارجہ کی جانب سے مناسب طریقے سے وضاحت کرکے معاملے کو سلجھا دیا ہے ۔ہاکستان کا یہ بھی کہنا اہم ہے کہ “پاکستان دوسرے ممالک کی سیاست اور اندورنی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا”پھر دوسروں کو بھی اپنے معاملات میں کبھی مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتا ،اس تناظر میں پاک امریکا قیادت کی ملاقاتوں میں بھی یہ بات واضح ہوچکی ہے پھر بھی عمران خان کی رہائی کے لئے نومنتخب امریکی صدر سے امیدیں وابستہ کرلینا پی ٹی آئی قیادت کا غیر سیاسی رویہ ہے ،پی ٹی آئی کے رہنما لطیف کھوسہ کے ٹرمپ کی طرف سے عمران خان کی رہائی کیلئے کچھ کرنے کی 100فیصد امید اور زلفی بخاری کی مجوزہ کاوشوں کو تو خود ٹرمپ کے کچھ ساتھیوں نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ ٹرمپ موجودہ پاکستانی حکومت سے ہر حال میں خوشگوار تعلقات کیلئے کسی حکومت مخالف کی حمایت نہیں کرسکتے ۔ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نومنتخب امریکی صدر کا صرف برسر اقتدار حکمرانوں کے ساتھ جھکائو رہے گا ،اپوزیشن رہنمائوں کو اہمیت نہیں دی جاتی “حتیٰ کہ غیر جمہوری حکمرانوں کے مقابلے میں جمہوری اپوزیشن کی حمایت سے بھی ٹرمپ گریزاں رہتے ہیں “ان حالات میں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ماضی میں کسی وزیراعظم کو دوست قرار دینا کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ وہ صرف برسر اقتدار حکومتوں کے ساتھ معاملات کرنے والے” تاجر مزاج”ہیں ،انہیں بدلتے وقت اور حالات کے ساتھ خود کو ڈھالنے کا ہنر آتا ہے اس حوالے سے عمران خان کی طرف سے بطور وزیرِ اعظم وائٹ ہاؤس کا دورہ 2019 میں کیا گیاتھا اور اُس وقت ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر تھے۔ کیمروں کے سامنے دونوں رہنماؤں کی ملاقات انتہائی خوشگوار رہی تھی۔پی ٹی آئی رہنمائوں کی جانب سے اس ملاقات کو لیکر اب تک انکے خوشگوار تعلقات قرار دینے والی منطق بھی سمجھ سے باہر ہے کیونکہ اس وقت حالات کا تقاضایہی تھا اب نئے حالات میں وزیراعظم شہباز شریف ہیں اور وہی انکے دوست ہونگے انہی کے ساتھ معاملات آگے بڑھائے جاسکیں گے ۔اس لئے ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کے حوالے سے کوئی دباؤ نہیں ڈالیں گے۔ یہ حقیقت طشت ازبام ہوچکی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے سیاسی معاملات میں کسی طرح کی مداخلت کرنے کا اختیار رکھتے ہیں نہ وہ ایسا کرنا چاہیں گے ۔اس کے باوجود سوشل میڈیا پر اس بات کو لیکر نیاتنازع کھڑا کرنے کا مقصد سیاست کو آلودہ کرنے کے سواکچھ نہیں ،اس تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ سے امیدیں لگانے والے درحقیقت پاکستان کی خود مختاری ،ریاست کی حاکمیت،آئین کی بالا دستی ،پارلیمنٹ کے وجود اور عدلیہ کے کردار سے انحراف کے سواکچھ نہیں کررہے ،بقول ڈاکٹر علامہ اقبال!
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے۔