خواہشوں کے دائرے

29

روداد خیال ۔۔۔۔۔صفدر علی خاں

اپنی ذات کے اندر رہ کر سوچنے والوں نے ہی دنیا میں برائی اور خباثت کو عام کیا ہے درحقیقت ضد اور ہٹ دھرمی سے ہی ہر طرف انتشار پھیل رہا ہے اور اب یہ وبا پاکستان میں بڑے وسیع پیمانے پر پھیل رہی ہے ۔دوسروں کو اپنے جیسا بنانے اور اپنے فیصلے کا تابع کرنے کا عمل کئی خرابیاں پیدا کرنے کا سبب ہے ۔سیاست میں تشدد کا امتزاج انہی پراگندہ ذہنوں کی یلغار سے آیا ہے ،جنہوں نے ہر فیصلہ کن موڑ پر دلیل کو مسترد کرکے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گفتگو یا مذاکرات کا بائیکاٹ کیا۔حقائق سے انحراف کا راستہ اختیار کرکے نئی خرابی پیدا کی ،بندہ پوچھے کبھی اس طرح تو قومی مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بائیکاٹ اور احتجاج سے تو مزید خرابیاں جنم لیتی ہیں ۔قومی مفاد پر اتفاق رائے کیلئے جب مذاکرات اور بات چیت ہی کو بہترین قرار دیا جاتا ہے تو پھر اس عمل سے انحراف کا مقصد جان بوجھ کر ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ بھی نہیں ،اسی طرح کا مسلسل مظاہرہ پاکستان کی سیاست میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔پاکستان میں آئینی ترامیم کے لئے جب ساری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھولے گئے ۔ناراض سیاسی رہنمائوں کے ساتھ بھی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو پھر اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنمائوں نے جب مجوزہ ترامیم کے مسودے پر سرجوڑ کر غور وفکر شروع کیا تو ایک جماعت کی طرف سے لیت ولعل سے کام لینے کی روایت کو آگے بڑھایا گیا ۔اس پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ جب تقریبآ سارے سرکردہ سیاستدانوں نے طویل غور وفکر کے بعد ملکر چلنے پر اتفاق کرنے کی ٹھان لی تو حسب معمول پاکستان کے مفاد کو نقصان پہنچانے والی قوتیں متحرک ہوگئیں ،ملک دشمنوں کی طرف سے دشمنانہ ذہنیت رکھنے والے “ضدی سیاستدانوں” کو ہم خیال بناتے ہوئے ملکی ساکھ پر رکیک حملے کئے گئے ۔ایک طرف ہم ایک بڑی عالمی کانفرنس کی میزبانی کا فریضہ انجام دے رہے تھے تو دوسری جانب 26ویں ترامیم کے مجوزہ مسودے پر مشاورت کے عمل کو جاری رکھا ہوا تھا مگر مخالفت میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے عجیب وغریب ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ۔اپنے ہی ملک کی بدنامی کا سبب بننے والی بے بنیاد ،فیک خبروں کا بیکراں طلاطم برپا کیا گیا ۔ملک کو رسوا کرنے کی شرمناک مہم چلائی گئی اور نوجوان ذہنوں کو اس کا حصہ بنانے کی خاطر انتہائی چالاکی سے گمراہ کن پروپگنڈے میں جان ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔اس پوری مہم کے دوران سیاست دانوں کو بدنام کرنے والا پہلو نمایاں رہا جس کا لازمی طور پر نقصان خود ان مہم چلانے والوں کو بھی ہوگا مگر وہ ضد اور ہٹ دھرمی کے سبب خود اپنے نقصان کی پروا کئے بغیر دوسروں کے نقصان پر تلے ہوئے ہیں ۔نفرتیں بانٹنے والوں کے پاس زندہ رہنے کیلئے شائد اب کچھ بھی باقی نہیں رہا اسی لئے انہوں نے سب کچھ برباد کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔ان کی نفرت میں پائی جانے والی یکسانیت سے بھی اب لوگ اکتا چکے ہیں ،یہی سبب ہے کہ ملکی مفاد کے لئے حب الوطن جماعتوں نے ہر طرح کے اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے آئینی ترامیم پر اتفاق کیا ہے یہی اچھائی کی جیت ہے ۔نفرت سے انتشار پھیلانا بھی اب آسان نہیں رہا ۔شرپسندی پر اکسانے والوں کے پاس اب زیادہ مواقع بھی نہیں رہے اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے مصلحت کے پیکر شاعر عرفان صدیقی نے صائب مشورہ دیا ہے کہ !

نفرت کے خزانے میں تو کچھ بھی نہیں باقی

تھوڑا سا گزارے کے لیے پیار بچائیں

اب گزارہ کرنے کے لئے پیار بچانے والے زمانے تو شائد گزر گئے ہیں کیونکہ اپنی جھوٹی آنا کیلئے حالات بگاڑنے والوں نے جلائو گھیرائو کے راستے چن لئے ہیں ۔انہیں اپنی کوتاہی نظر ہی نہیں آئے گی کیونکہ یہ زمینی حقائق سے روگردانی پر تلے ہوئے ہیں ۔دشمنی کی لہر پر اندھا دھند چل پڑے ہیں ،اپنے جھوٹ کو حقیقت تسلیم کروانے کی خواہش نے ان سے انسانیت کا سرمایہ چھین لیا ہے ۔اسی وجہ سے وہ کسی حقیقت کو تسلیم کرنے سے عاری ہیں ۔بقول شاعر !

کیا قیامت وہ کم نگاہی تھی

ہر حقیقت کو جس نے جھٹلایا

مگر حقائق کو جھٹلانے سے کبھی حقیقتیں ٹل نہیں جاتیں ،وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے ۔بات چیت اور مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے والے کچھ صاحب الرائے بھی ہوتے ہیں اور انہیں ضدی سیاست میں کبھی جگہ نہیں مل سکتی ،اب انکے ساتھ انہی کے ساتھی تادیبی کارروائیاں کررہے ہیں یعنی اپنے ہی اراکین کے گھروں کے محاصرے اور
جلائو گھیرائو کی ہدایات دی جارہی ہیں ،اس طرح کی شرپسندانہ کارروائیوں سے بھلا کونسے مسئلے حل ہوسکیں گے ؟.اپنی خواہشوں کے دائروں میں بند عناصر اب اپنے ہی ہم خیالوں کے اختلاف رائے پر بھڑک اٹھے ۔اپنے ہی بندوں کے محاسبے کی ٹھان لی ہے تو پھر اس نفرت سے کون بچے گا،کیونکہ اندھی نفرت نے گھیر کر خود انہی کا اپنا محاصرہ کرنے کا ماحول بنادیا ہے ۔ایسے منتشرالخیال لوگوں کے لئے اب اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے ،اسکے باوجود سیاست میں ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ۔ کسی نے اپنے رویوں کے نقصانات سے بھی سبق نہیں سیکھا ۔کیونکہ ایسے لوگ اپنی خواہشوں کے دائروں میں بند ہوکر نفرت سے دوسروں کا محاصرہ ہی کرنا جانتے ہیں جس کیلئے اب انکے پاس سوشل میڈیا کا ہتھیار بھی میسر ہے ۔نفرت کے حصار میں بند رہنے والوں کی تباہی کو اب روکنا کسی کے بس میں نہیں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.