14اگست کوھر سا ل قومی اعزازات کے اعلان کے بعد کچھ قابل اعتراض اعزازات کی نشان دہی کی جاتی ھے اس بار عوامی سطح پر زیا دہ ردعمل پڑھنے کو ملا۔
تین چار برس قبل جب سرگو دھا کے نابینا پروفیسر ڈاکٹر اقبال کو تمغہء امتیاز دیا گیا تب بھی اھل نظر نے کہا تھا کہ نو برس میں بلا ئینڈ ھو جانے کے باوجود انگلش میں ایم۔اے۔اورپھر پی۔ایچ۔ڈی۔کرنے والے با ھمت، معروف شاعر و ادیب ،مدیر ماھنامہ سفید چھڑی کو کم از کم ستارہ امتیاز ملنا چاھئیے اور ان کے والد ٹیچر کو بھی جنھوں نا مساعد حالات میں 4 نابیناؤں کی مثالی تعلیم و تربیت کی۔۔۔پر۔۔۔ع۔۔۔
کون سُنتا ھے فغان درویش
اس بار لطیفہ یہ ھوا کہ دانش ور، ھلال پاکستان ھولڈر ممتاز جرنلسٹ،اینکر پرسن چیف ایڈیٹر مجیب الرحمٰن شامی کو دوبارہ تمغہء امتیاز دینے کا اعلان بھی پڑھا۔
اسلام آباد کے مشھور شاعر و ادیب ڈاکٹر مقصودِ جعفری رقمطراز ھیں کہ “مجھے مُلک بھر سے ادیبوں ، دانشوروں اور شاعروں کے مسلسل ٹیلیفون آ رہے ہیں کہ 14 اگست 2025ء کو جو قومی اعزازات دئیے گئے ہیں اور غیر مستحق افراد کو سفارشی بنیادوں پر نوازا گیا ہے اس پر راۓ زنی کروں۔ ۔ میں اس موضوع پر بالکل خاموش رہا اور اجتناب کرتا رہا کیونکہ مجھے سفارشی تمغے درکار نہیں اور نہ ہی ان پر راۓ زنی کی مجھے ضرورت ہے۔ ابھی ممتاز دانشور اور شاعر و ادیب جناب حسن عسکری کاظمی صاحب کا فون آیا، انہوں نے کہا کہ میں اس قومی سطح کی ناانصافی پر اپنا احتجاج ریکارڈ پر لاؤں۔ میں نے اُن سے بھی معذرت کرتے ہوۓ کہا کہ مجھے اِن اعزازات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ شاعر ، ادیب اور دانشور،اعزازت کے لئے نہیں لکھتا وہ انسانیّت کے لیے لکھتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ عالمی سطح کے مشہور و معروف شاعر اور دانشور ہیں اور کئی کتابوں کے مصنّف ہیں ۔ آپ کو یہ تمغہ نہ دینا سراسر ناانصافی ہے۔ میں نے اُن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کیا کہ نہ میں نے اس قسم کے تمغہ کے لیے کبھی کسی سے کہا اور نہ مجھے ایسے تمغوں کی خواہش ہے۔ البتہ میری سفارش پر پہلی حکومتوں میں چند مستحق لوگوں کو تمغہ دیا گیا لیکن میں نے پاکستان کے کئی صدور اور وزراۓ اعظم سے دوستانہ مراسم کے باوجود ان تمغوں کی اپنے لئے کوئی خواہش نہیں کی۔ آج بھی صدرِ پاکستان اور وزیرِ اعظم مجھے ذاتی طور پر نہ صرف جانتے ہیں بلکہ میری علمی اور ادبی خدمات سے بھی واقف ہیں۔ کچھ لوگوں کو اُن کی خدمات پر جائز پذیرائی بھی ہوئی ہے جس سے انکار نہیں ۔ لیکن قومی سطح پر غیر مستحق لوگوں میں ان تمغوں کی جو بندر بانٹ ہوئی ہے وہ باعثِ شرم ہے۔ میں اس ناانصافی پر احتجاج کرتا ہوں اور صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری صاحب اور وزیرِ اعظم پاکستان جناب شہباز شریف صاحب سے پُر زور اپیل کرتا ہوں کہ موجودہ فہرست میں نئے نام بھی شامل کیے جائیں اور 23 مارچ 2026ء کو اُنہیں بھی تمغے دیئے جائیں تاکہ حق بحق دار رسید بھی ہو اور ان تمغوں کے وقار میں بھی اضافہ ہو” ۔
راقم تو ادب کا طالب علم اور خدمت گارادب ھے،ڈاکٹر جعفری کی طرح سفارش نھیں کر سکتا البتہ گزارش کرسکتا ھے کہ بدیہہ گو قادر الکلام شاعر وروز نامہ اوصاف کے قطع نگار علیل اقبال راھی جن کے عمدہ قطعات کے متعدد مجمو عے شائع ھو چکے ھیں، کے تین بچے تھیلیسیمیا سے فوت ھو چکے ھیں اور چوتھا مریض
بیٹاموت کی طرف بڑھ رھا ھے کو پرائیڈ اوف پر فارمنس ضرور دیں،چاھے پہلے پاکستانی اسپرانتو دان
علا مہ مضطر عباسی( جو تنہا اداروں کا کام کرگئے) و ممتاز شاعر جناب شمیم رجز کو نہ دیں،البتہ ان کے منظوم مفھوم قرآنی کے کچھ اشعار ملاحظہ فرما لیں:
یہ قرآں ھر انساں کا ھے رھبر
اسی میں ھیں آیات حق جلوہ گر
ھمیشہ اسی کی کرو پیروی
جو تعلیم ھے اس میں الللہ کی
زمیں میں نہ فتنے اٹھاتے پھرو
ھمیشہ شرارت سے بچتے رھو
کرو ایسی باتیں نہ صبح و مسا
پڑے جس سے اسلام میں تفرقہ
نہ باھم تجسس کرو صبح و شام
نہ غیبت کا ائے زبانوں پہ نام
کرو تم نہ آپس میں طعنہ زنی
نہ القاب بد سے پکارو کبھی
تمہیں چاہیے یہ بھی ہے اے مومنو!
نہ آپس میں تم بدگمانی کرو
رکھو ان غریبوں کا بھی تم خیال
جو کرتے نہیں تم سے آ کے سوال
نباتات کا جس طرح ھے ظھور
اسی طرح نکلیں گے اہل قبور
جو منکر ہیں آیات کے بد نصیب
حساب ان سے لے گا خدا عنقریب
وھاں ہر بشر کو نظر ائے گا
عمل جو وہ دنیا میں کرتا رھا
رکھو عہد و پیماں کا اپنے خیال
ضرور ان کے بارے میں ہوگا سوال
سنو غور سے حکم خالق سنو
ھر اک شخص سے عدل و احساں کرو
تمہیں ورد گو ھے قرآن مبیں
تو کیوں عقل سے کام لیتے نہیں؟
نصیحت تو بس مانتے ہیں وھی
جنہیں عقل کی روشنی مل گئی
یقینا خرابی ہے ان کے لیے
جو دیتے ہیں لوگوں کو کم تول کے
پروفیسر ڈاکٹر تیمور نابینا جو گزشتہ دنوں انتقال کرگئے تھے، کے حسب حال چند اشعار بھی قابل غور ھیں:
جس کو دستار ملی لائق دستار نہ تھا
دوسرا بھی تو مگر شہر میں حقدار نہ تھا
غور کرنے پہ یہ کھلی اپنی حقیقت مجھ پر
میں جو بے کار نظر آتا تھا بے کار نہ تھا
جو مجھے چاہیے تھا وہ تو یہاں تھا ہی نہیں
جو میسر تھا یہاں وہ مجھے د رکار نہ تھا
حیثیت جس میں مجھے مرکزی لگتی تھی میری
اس کہانی میں میرا کوئی بھی کردار نہ تھا
ان جیسی کوآلی فائیڈ شخصیات کو قومی اعزاز دینے سے ،اعزازات،معتبر اور باوقار قرار پائیں گے اور ان کی توقیر میں اضافہ ھو گا۔
مانیں نہ مانیں آپ کو اختیار ھے
ھم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ھیں