کچا تیرا مکاں ہے، کچھ تو خیال کر

تحریر: خالد غورغشتی

2

ہمارے ملک میں آفتیں ہیں کہ پیچھا چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ کبھی سیاسی بحران، مہنگائی کا طوفان، بوند بوند پانی کی تلاش تو کبھی ایسی موسلا دھار بارشیں برستی ہیں کہ زندگی کا وجود ہی بہا لے جاتی ہیں۔ کوئی ایک مصیبت ہو تو ذکر کیا جائے، یہاں تو آپ گھر کے اندر بھی محفوظ نہیں رہے۔

بالآخر طویل قحط سالی کے بعد اب مون سون بارشوں کا آغاز کیا ہوا؛ کچی آبادیوں سے لے کر پکے مکانوں تک سب کچھ بہا لے گیا۔ اِنس، چرند اور پرند سب بارانِ رحمت کے لیے ترس رہے تھے، ساون کی برکھا جو برسی، وہ رحمت کے بجائے زحمت بنی۔ بڑے بڑے شہر، جو ترقیاتی دعوؤں کا مرکز سمجھے جاتے تھے؛ وہ پانی میں ڈوب کر نہانے لگے۔ گلیاں، سڑکیں، مکانات اور بازار سبھی کچھ سیلاب کی نذر ہو گیا۔ نقصان ایسا ہوا کہ برسوں بھی شاید اس کی تلافی نہ ہو پائے۔

بعض علاقوں کو بارشوں سے قبل ہی آفت زدہ قرار دے کر وہاں کے مکینوں کو نقل مکانی کی ہدایات دی گئیں، جس پر ہمیشہ کی طرح کسی نے کان نہ دھرے۔ بلآخر وہی ہوا؛ جو برسوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ آسمان سے برستی رم جم اور زمین پر تیرتا پانی سب کچھ بہا لے گئے۔ بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، ہزاروں افراد بے گھر ہوئے اور زندہ بچنے والے بے سہارا اور بے یار و مدد گار رہ گئے۔

یہ آفات بلاشبہ قدرتی امر ہیں اور ہمیں ان کے ذریعے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیگر ممالک میں بھی جب ایسی قدرتی آفات نازل ہوتی ہیں؛ وہاں کے ادارے جدید ٹیکنالوجی، بہترین منصوبہ بندی اور فوری امداد کے ذریعے حالات کو کیسے قابو میں کرلیتے ہیں؟ جب کہ ہمارے ملک میں صورتِ حال اس کے بالکل برعکس کیوں ہے؟ نہ قبل از وقت اقدامات، نہ بعد از آفت کوئی ٹھوس حکمت عملی دکھائی دیتی ہے۔ ناگہانی آفات کے بعد جگہ جگہ امداد کے نام پر فوٹو سیشنز، اعلانات اور اعداد و شمار کا ہیر پھیر مگر عملی طور پر متاثرین کا حال جوں کا توں کیوں رہتا ہے؟

ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہر مُصیبت کو ریٹنگ اور سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ کہیں فلاں پارٹی کا راشن تو کہیں فلاں شخصیت کی گاڑی میں امداد کا تاثر دیا جاتا ہے۔ خدمت خلق کو دکھاوا بنا کر ہم نے اپنی روح کھو دی ہے۔ متاثرین کے لیے امداد ایک ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ کسی کی تشہیر کا ذریعہ۔ ایک ماں اگر اپنے بچے کی لاش کو پانی سے نکال رہی ہو تو اُسے دو راشن کے پیکٹ دے کر تصویر لینا؛ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

ایسے میں اگر کوئی عملی طور پر جان کی بازی لگاتا؛ مدد کرتا نظر آتا ہے تو ریسکیو 1122 اور پاک فوج کے وہ جوان؛ جو خاموشی سے پانی میں کُود کر زندگیاں بچاتے ہیں۔ وہ نہ کسی چینل کے محتاج ہیں، نہ سوشل میڈیا کے۔ اُن کا مقصد صرف اور صرف خدمت خلق ہے اور یہی وہ جذبہ ہے؛ جو قوم کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ ہم بہ طور قوم کب جاگیں گے؟ کب ہم راشن بانٹنے کی تصویروں سے نکل کر ادارے مضبوط کریں گے؟ کیا ہر بار تباہی کے بعد رونا دھونا ہی ہمارا مقدر ہے؟ یا ہم کبھی قبل از وقت تیاری کی مضبوط حکمت عملی اور حقیقی خدمت کا مظاہرہ کریں گے؟

کب تک ہم بارش کے بعد چھتوں کے گرنے پر افسوس اور ٹوٹی دیواروں کے ملبے پر ہمدردی کے پھول چڑھاتے رہیں گے؟ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم میک اپ زدہ ہمدردی سے نکل کر ٹھوس اقدامات کی طرف بڑھیں۔ ہمیں اپنی پالیسوں کو ازسرِ نو تشکیل دینا ہو گا۔ کیوں کہ یاد رکھیں:

ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز

کچا تیرا مکان ہے، کچھ تو خیال کر

سیلاب کا خطرہ ٹلا نہیں آنے والے دو ہفتے خطر ناک ہو سکتے ہیں، چیئر مین این ڈی ایم اے۔ پنجاب سمیت ملک بھر میں 30 اگست تک شدید بارشوں کی پیش گوئی، شہریوں کو الرٹ رہنے کا انتباہ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.