ہم اس معاشرے میں زندہ ہیں جہاں مزدور کو آٹھ سو دیہاڑی دینے کے لیے کئی کئی ہفتے انتظار کروایا جاتا ہے، جہاں بہنوں کو اکثر جایداد میں حصہ نہیں دیا جاتا، جہاں جگہ جگہ نفرتوں کے بت کھڑے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ہر برائی کے پیچھے کسی نہ کسی قوت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے جو اسے تقویت بخشتی ہے۔ ہمارے ملک میں رمضان کی آمد ہوتے ہی لوگ صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگ راشن کی شکل میں تو کچھ نقد رقم کی صورت میں یہ نیکی انجام دیتے ہیں۔ یہ کام اچھا ہے یا برا، یہ جاننے سے پہلے ایک اصول ذہن نشین کر لیں کہ اسلام میں سب سے پہلے رشتے داروں کا حق ہے، اس کے بعد پڑوسیوں کا۔ اگر یہ دو بنیادی حق دار ہی ناتواں ہیں تو دوسروں کو نوازنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟
ہمارے ہاں ہر کام الٹی سمت میں چلتا ہے۔ جو لوگ راشن تقسیم کرتے ہیں، وہ درحقیقت دوسروں کو بھکاری اور محتاج بنانے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ رشتے داروں کو اس قدر مستحکم کیا جاتا کہ وہ باعزت روزگار حاصل کرکے صدقے اور خیرات پر پلنے کے بجائے محنت مزدوری سے اپنا گزر بسر کرتے، مگر افسوس کہ پچاس پچاس لاکھ کا راشن تقسیم کرنے والے اپنے قریبی رشتے داروں اور علاقے کے لوگوں کو بھی مستقل بھکاری بنانے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ بے تدبیری میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب قریبی لوگ ہی محتاج ہیں تو پورے علاقے کو راشن کی تھیلیاں تقسیم کرنے کا مقصد سوائے خودنمائی اور دوسروں کو احساسِ کم تری میں مبتلا کرنے کے اور کیا ہو سکتا ہے؟
اسی طرح جب نقد زکوٰۃ تقسیم کی جاتی ہے تو ہر کسی کو پانچ، دس ہزار دے کر ایسا احسان جتلایا جاتا ہے جیسے کوئی جایداد میں سے حصہ دے دیا ہو! یہ کتنی نادانی ہے کہ لوگوں کو کام اور روزگار پر لگانے کے بجائے انہیں صدقے اور خیرات پر لگا دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کی ایک بڑی تعداد محنت مزدوری سے جی چرانے لگی اور دوسروں کی جیب پر نظر رکھنے کی عادی ہو گئی۔ ابھی رمضان کے ابتدائی ایام ہیں، آخری ایام تک دیکھیے گا کہ ملک میں بھکاریوں کی تعداد کیسے بڑھتی ہے، ہر گلی، نکڑ، سڑک، بازار اور دکان پر ایسے افراد نظر آئیں گے جن کا واحد پیشہ مانگنا بن چکا ہے۔ وہ مقدس مہینا، جس میں اللہ سے خاص مناجات کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس میں ہماری قوم کی اکثریت لوگوں کے آگے جھولیاں پھیلانے میں مصروف نظر آئے گی۔
یہ کتنا دردناک پہلو ہے کہ ہمارے ہاں خیراتی ادارے بھی فلاحِ انسانیت کے نام پر قائم کیے جاتے ہیں، مگر ان کا اصل مقصد زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کو لے کر خود ہضم کرنا ہوتا ہے۔ یاد رکھیں! قومیں صدقے اور خیرات سے نہیں، بلکہ جزیے اور ٹیکس سے چلتی ہیں۔ دراصل اس کلچر کو فروغ دینے میں خیراتی اور مذہبی تنظیموں کا بھی بڑا ہاتھ ہے، جو قرآن و حدیث کا سہارا لے کر دوسروں سے چندے اکٹھے کرتے ہیں۔
گداگری ایکٹ کا نفاذ ملک میں ایک انقلابی قدم ہے، جس پر پنجاب حکومت کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے۔ اب اگر اگلا لائحہ عمل یہ اختیار کر لیا جائے کہ تمام مذہبی اور خیراتی تنظیموں پر چندہ اکٹھا کرنے کی پابندی عائد کر دی جائے، تو بھکاری پن کے اس دھندے پر قابو پانا ممکن ہو جائے گا۔ جب بھی ان بھکاریوں کو پکڑا جاتا ہے تو ان کی آخری دلیل یہی ہوتی ہے کہ خیراتی اور مذہبی ادارے تو صدقات و خیرات پر چل رہے ہیں، تو اگر ہم نے اپنے گھر والوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کچھ مانگ لیا تو کون سا گناہ کر لیا؟
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے قوم کو خوددار بنانے کے لیے ہر قسم کے صدقے اور خیرات پر چلنے والے اداروں کو بند کر کے وہاں “با ہنر نوجوان، با ہنر خاندان” سکیم کا آغاز کیا جائے، تاکہ دنیا بھر میں ہم پر لگا بھکاری قوم کا داغ مٹایا جا سکے۔ ورنہ، اگر یہی روش جاری رہی تو چند برسوں میں بھکاریوں کی تعداد آدھی آبادی پر مشتمل ہو جائے گی اسی ضمن میں چند روایت پیش کر کے اجازت چاہوں گا۔
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ” جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے۔ اب چاہے تو وہ کم کرے یا زیادہ اکٹھے کر لے (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب النھی عن المسئلہ) حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ جا کر کسی سے سوال کرے اور وہ اسے دے یا نہ دے۔” (بخاری۔ حوالہ ایضاً) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب من سال الناس تکثرا)
نبی کریم کے زمانے میں تین چار سو ایسے مہاجر صحابہ کرام تھے، جن کے پاس نہ مال تھا نہ اہل اور نہ سر چھپانے کے لیے جھونپڑا۔ وہ بارگاہِ رسالت میں حاضر رہتے اور جس کام کے لیے حکم ملتا اس کی تعمیل کرتے۔ جب کہیں سرایا بھیجنے کی ضرورت ہوتی یہ بلا تامّل حاضر ہوتے اور جب فارغ ہوتے تو قرآن کریم یاد کرتے اور حدیث پاک کو حفظ کرتے۔ ان کی رہائش کے لیے حضور پاک نے مسجد ہی میں ایک جھونپڑا بنوا دیا تھا۔ فقر و تنگ دستی کے باوجود عزت نفس اور خود داری کا یہ عالم تھا کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاتے۔ جیسی بھی گزرتی خاموشی اور صبرسے گزار دیتے۔ اللہ تبارک