غمی اور خوشی کی تقریبات

54

ہماری حالت اب ایسی ہو چکی ہے کہ پچاس پچاس لاکھ غمی و خوشی کی تقریبات میں لوگوں کو دیکھانے کے لیے لگا دیتے ہیں۔ جب کہ پڑوسیوں کی بھوک و پیاس کے باوجود ہم اُنھیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ آپ اکثر دیکھتے رہتے ہوں گے کہ کیسے ولیموں اور برسیوں پر پانی کی طرح پیسا بہا دیا جاتا ہے۔ جس کا مقصد علاقے میں نام وری کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

جہاں تک میت کے کھانے کا سوال ہے تو یہ تمام مسالک کے نزدیک پہلے تین دن کا مرنے والے شخص کے گھر میں کھانا پکنا ہی شرعاً درست نہیں۔ اس کے باوجود ہمارے رشتہ دار میت کے گھر تین دن تک خوب پیٹ بھر کر کھاتے ہیں، وہ کھانا جس سے دل مردہ ہوتا ہے۔ مرنے والے پر دیگیں چڑھانے سے بہتر تھا کہ زندگی میں ہم اس کی قدر کرتے اور اس کی جملہ محرومیوں اور فاقہ کشیوں کا ازالہ کرتے۔ جب وہ شخص اللّٰہ کے سپرد ہوگیا تو اب بعد میں اس کی مرنے پر کھانے بنانا کر کھلانا کون سی اسلامی خدمت ہے؟

ہم ایصالِ ثواب کے قطعی منکر نہیں ، لیکن کیا ہم پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے پڑھتے ہیں؟ کیا ہم ہر نماز کے بعد مردوں کے لیے ایصال ثواب کے نزرانے پیش کرتے ہیں، اگر نہیں تو ہمارے ان دِکھلاوں کی مردوں کو کیا حاجت ہے؟

زندہ شخص بھوک سے سسک سسک کر مر جاتا ہے اور ہم مرے ہوئے شخص پر ایک وقت کی روٹی کے لیے لاکھوں روپے لگا دیتے ہیں۔ کیا ہم یہی پیسے زندوں پر خرچ کریں اور ان کی مالی معاونت کر کے ان کو پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں تو کیا ہمارا معاشرہ تنزلی سے نہیں نکل سکتا ہے؟

اسی طرح بھکاریوں، مدارس و مساجد کو چندہ دینے سے پہلے اپنے اردگرد بھی دیکھ لیجیے، مزکورہ بالا لوگ کہیں نہ کہیں سے نکال ہی لیتے ہیں۔ آپ کا پڑوسی، آپ کا رشتہ دار کہیں بھوک و پیاس اور تنگ دستیوں سے خودکشی کی طرف تو گامزن نہیں؟ یقیناً ہم سے رشتے داروں اور پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں کل قیامت کے روز پوچھ گچھ ضرور ہوگی۔ اللّٰہ نے ہماری خیراتوں، ولیموں مسجدوں، مدرسوں اور خیراتی اداروں کے دیے گئے چندوں اور کھانوں کے بارے میں نہیں پوچھنا۔

غمی کی طرح خوشی کے موقع پر بھی جہیز ، ولیمے ، مہندی اور نہ جانے کیسی کیسی دیگر رسومات پر بیش بہا سرمایہ لوگوں کو دکھانے کے لیے لوٹا دیا جاتا ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس گھر کھانے کو دانے نہیں ان کو مزید احساسِ کمتری میں مُبتلا کےلیے نت نئے نئے رنگ کے کھیل رچائے جاتے ہیں۔

گزشتہ دنوں لاہور کے ایک پروفیسر صاحب مجھے سے مخاطب ہو کر کہنے لگے بھیا: ” ہمارے سماج میں آپ کو ہر معاملے میں اختلاف نظر آئے گا لیکن پیٹ پوجا ،جنسی ہوس اور چندہ اکھٹا کرنے میں سب مسالک کیوں متفقہ علیہ ہیں؟ “

کاش ہم اسلام کے نام پر چندے بٹورنے اور میت کے نام پر کھانے کی روش اپنانے کی بجائے بھوکوں کو کھلاتے اور محروموں کو عطا کرنے کی سنت پر کاربند ہوتے تو آج لوگ اسلام سے اتنا بیزار نہ ہوتے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.