خزاں رسیدہ

42

 احساس کے انداز

تحریر ؛۔ جاویدایازخان

وہ   منتہاۓ     فلک   پر حسین نقطہ    ہے

میں اس کی ذات کو حروفوں میں بانٹتا کیسے ؟

(سعید چشتی)

کہتے ہیں کہ اچھا دوست ڈھونڈنا مشکل، ملنا مقدر ،چھوڑنا بہت مشکل اور بھولنا تو ناممکن ہوتا ہے ۔بڑی عمدہ سوچ کا اچھا شاعر محبت بانٹنے والا انسان خلوص ووفا کا پیکر اور سچا عاشق رسول مجھے ہمیشہ اپنا مرحوم دوست سعید چشتی  بہت یاد آتا ہے ۔ یوں تو ہر انسان کی پوری زندگی ایک تاریخ  ہی ہوتی ہے لیکن کچھ لوگ اپنی اپنی ذات میں ایک زندہ آپ بیتی لیے ہوتے ہیں سعید چشتی بھی ان میں  ہی سے ایک تھا جو  پوری زندگی یہی کہتا رہا تھا کہ اگر اسلام آباد کی خوبصورتی دیکھنی ہے تو خزاں کے دوران میرے پاس آو ُ۔اتفاق سے آخری مرتبہ اس کے پاس جانا ہوا تو خزاں  اور سردی بھی عروج پر تھی اور میرے پاس وقت بھی بہت تھا ۔اسے پیدل چلنے کا خبط بھی شروع سے ہی تھا ۔میں نے کہا  یار ! مجھےخزاں کی  وہ خوبصورتی دکھاو ُ  ؟ ہر صبح اور شام گرم کپڑوں سے لپٹے ہم  دونوں دوست ارد گرد کے مرگلہ پہاڑی کے  درختوں کے درمیان گھومتے خا ص طورپر شکر پڑیاں کی جانب جاتے ہوے سڑک کے کنارے کنارے  ٔخزاں رسیدہ درختوں کی خوبصورتی  اور خاموشی کو محسوس کرتے  ۔ہمارے چلنے سے خشک پتوں کی چرمراہٹ کی دھیمی دھیمی آواز کانوں کو بھلی لگتی  تو پرانی یادیں جاگ  اُٹھتیں ۔وہ حسین اور تلخ یادیں جو ماضی کے اوراق  میں کہیں دبی ہوتی ہیں   اور ذہن کے بند گوشوں سے انہیں تلاش کرکےانہیں دوہراتے تو   زندگی کے کئی دھندلے مناظر آنکھوں میں اتر آتےہیں یہ جب ہی ہوتا ہے جب دو پرانے بچپن کے دوست ایک ساتھ ہوں ۔اس دوران    ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر بلاوجہ ہی ہنس دیتے ۔خزاں بھولی بسری یادوں کا موسم ہی تو ہوتا ہے ۔پھر وہ تو تھاہی خزاں کا شیدائی  ! ایک دن کہنے لگا  یار ! بچپن ،جوانی اور اب بڑھاپا ساتھ ساتھ گزرا  ہے ۔بچپن کی  معصوم شوخیاں ،جوانی کی جولانیاں ، شوخیاں گزرچکی  ہیں ۔اب  سات دھائیوں کے بعد بڑھاپے اور خزاں کا یہ موسم کیسا لگتا ہے ؟تمہیں پتہ ہے موسم خزاں جدائی  اور بچھڑنے کی علامت ہوتا ہے ۔جب خزاں اپنے عروج پر آتی ہے اور پتے شاخوں سے جدا ہونے لگتے ہیں بلکہ درخت خود انہیں اپنے سے جدا کر رہے ہوتے ہیں تو انسان ایک مرتبہ یہ سوچتا ضرور ہے کہ زندگی کی شاخ سے ایک دن اسے بھی خشک ہو نے پر گرا دیا جاے گا ۔کیا ہم بھی اسی طرح ایک دن جدا ہو جائیں گے ؟بہار پھر خزان پھر بہار پھر خزاں یہی تو زندگی  کی کہانی ہے ۔ وہ کہنے لگا  بچھڑنے کو بےچین درختوں کے پتے ہوں یا انسانی چہرے جب زرد ہو جائیں تو خزاں رسیدہ سمجھے جاتے ہیں اور ان کا حسن  مزید نکھر جاتا ہے یہ زرد پتے یا زرد چہرے زیادہ محبت کے مستحق ٹھہرتے ہیں ۔ یونہی اپنے بہت سےنایاب  دوستوں سے بچھڑنے کے دکھ  اور انکی یاد میں سوگوار ہوتے ہوے ہم پورےبیس دن اسلام آباد  کی سڑکوں پر گھومتے رہے ۔واقعی وہ صیح کہتا تھا  اسلام آباد کی  خاموش خزاں بہار سے زیادہ خوبصورت اور دلفریب  تو ضرور ہوتی ہےمگر اداس بھی  ہوتی ہے ۔وہ کہنے لگا  آخر یہ موت کے بےرحم ہاتھ ہم میں سے بہترین انسانوں کا انتخاب کیوں کرتے ہیں؟ آج مجھے اسکے سوال کاجواب مل چکا ہے کہ وہ اسلیے کہ انہوں نے زندگی کا امتحان جلدی پاس کر لیا ہوتا ہے ۔اس لیے شاید ان کے دنیا میں رہنے کی ضرورت نہیں ہوتی ؟شاید ان کی ضرورت یہا ں سے وہاں بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ موت کے بےرحم ہاتھ اپنا چناو نہایت شاندار طریقے  سے کرتے ہیں  وہ ہم  میں سےاچھے  قابل اور بہادروں  کا انتخاب کرتے ہیں ۔ دوستوں کی محفلیں سجانے والا سعید چشتی کسی  پہاڑی بڑے درخت  کی مانند ٹھنڈے اور گھنے ساۓ کے ساتھ ساتھ پھل دار بھی تھا ۔  جسکا سایہ اسلام ٓباد میں اتنا گھنا تھا کہ دنیا کا کوئی کام ہو تو ہمیں یقین ہوتا تھا کہ کوئی بات ہی نہیں وہاں اپنا  یار ! سعید چشتی تو ہے ناں  ! پہلے دل کے دورے کے بعد بھی اس کی  یہ زندہ دلی برقرار رہی ۔جب میں نے بنک چھوڑا تو کہنے لگا یار میں بار بار  کہتا تھا کہ ایل ایل بی کر لو   یہ کام آے ٔ گی  اب دیکھوں میں اسلام آباد بار میں پڑیکٹس کر رہا ہوں اسلام آباد بار کا ممبر ہوں ۔ابھی بھی وقت ہے بڑی عمر پڑی ہے  تین سال  ہی تو لگتے ہیں ایل ایل بی کر  ہی ڈالو  ! اسے پتا  ہی نہیں تھا کہ ہماری عمر تو گزر چکی ہے ۔  خزاں کے موسم میں یہ اس سے آخری یادگار  ملاقات تھی ۔جب مجھے محسوس ہوا کہ وہ اندر سے ٹوٹ رہا ہے ۔اس  کا یہ  گھنا اور بلند پودا  خزاں کے ہاتھوں سوکھ رہا ہے ۔مجھے کہنے لگا یار  ! بچپن کی یاد تازہ کرنے کے لیے آخری مرتبہ اکھٹے ایک مووی(فلم )  دیکھتے ہیں  ۔میں نے کہا وہ کیوں ؟ کہنے لگا خزاں کی رت میں پتوں کا گرنا   اور بڑھاپے میں امراض کا بڑھنا تو معمول ہوتا ہے ۔بڑھاپے اور خزاں میں ہر چیز آخری ہوتی ہے ۔ ہمیشہ بچپن سے تم  مجھے فلمیں دکھاتے رہے ہو  ۔اس مرتبہ یہ آخری   مووی میری جانب سے ہوگی ۔مگر یکم  تاریخ کے بعد ذرا میری تنخواہ مل جاۓ۔ نہایت اہم ترین وفاقی عہدوں پر رہنے والا  بیس گریڈ کا افسر جس نے ساری زندگی ڈھائی مرلہ کے گھر میں بغیر ذاتی  سواری کے گزاری  آج بھی اپنی تنخواہ کا  منتظر رہتا تھا  ؟   پھر ہم نے اس   یکم کے بعد واقعی آخری  دفعہ اکھٹے انڈین فلم “باڈی گارڈ ” وہا ں دیکھی  ۔ مجھے اپنا اور اسکا بچپن ،جوانی کا دور یاد آگیا  جب ہم باہوں میں باہیں ڈال کر سینما کی پہلی اور سستی سیٹوں پر بیٹھتے ،نعرے   اور سیٹیاں بجاتے تھے۔ایک معمولی ٹائپسٹ سے بیسویں گریڈ کے طویل سفرکے بعد بھی  وہ مجھے بچپن کا وہی معصوم سعید چشتی ہی لگ رہا تھا  جو فلمیں بھی گنگنا  کر دیکھتا تھا  اور تبصرہ بھی اپنے انداز میں کرتا تھا ۔

بچپن میں ہم سب دوست محرم کے موقعہ پر ہم اکھٹے  مجلس اور بیان سننے ضرور جاتے تھے  گو ہمار ا تعلق شیعہ مسلک سے تو ناتھا مگر سعید چشتی کو اہل بیت اور خصوصی حضرت امام حسین  علیہ والسلام سے جنون کی حد تک عشق ،لگاؤ  اور محبت تھی ایک دن کہنے لگا یار   محرم کے مظالم سن کر زندہ رہنے کو دل نہیں کرتا  کاش میں اس دور میں ہوتا  تو  اہل بیت کا کربلا میں تو امام حسین ؑ  کی صف میں کھڑہوتا اور دشمنان اہل بیت سے لڑتا ہوا سب سے پہلے شہید ہوتا ۔ہر  دفعہ دس محرم کے دن اسکی کیفیت نہایت اداس ہو جاتی تھی ۔عشق رسول اور محبت اہل بیت سے سرشار  سعید چشتی کی جب دس محرم کے دن وفات کی خبر آئی تو میں سوچ رہا تھا کہ یقینا” اس کی  دیرینہ خواہش پوری ہو گئی ہے ۔ہر محرم کی دسویں تاریخ کو  یوم عاشور پر   اسکی  برسی  کا ہونا اسے یقینا” اہل بیت کے ان غلاموں  کی صف میں شامل کردیتا ہے جو ان سے عشق رکھتے ہوۓ جان دیتے ہیں ۔یہ اعزاز کیا کم ہے کہ اسکی برسی بھی حضرت امام حسین علیہ والسلام کی شہادت کے دن ہی ہوتی ہے ۔

اسےاردو اور سرائیکی  شاعری سے بڑا لگاو تھا ۔اس لیے اس کا نام اسلام آباد کے ادبی حلقوں  کی جان اور پہچان  بن گیا تھا ۔ کوئی بھی اسلام آباد کی ادبی سرگرمی اس کے بنا  مکمل نہ وہوتی تھی ۔وہ بےشمار لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکا تھا ۔ہر صبح اسکا منفرد  واٹس ایپ پر سلام  اور پیغام تو آتا ہی تھا  ۔آخری مرتبہ کہنے لگا یار  ! ویڈیو  تو آن کرو  ذرا ایک دوسرے کی شکل بھی دیکھ لیں زندگی کا کیا بھروسہ ہے زندہ چہرے دیکھنا مردہ چہرے دیکھنے سے بہتر ہوتا ہے ۔اس کے چہرے کی مخصوص مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ شاید وہ خزاں رسیدہ   پتے کی طرح اپنی واپسی کے سفر کو محسوس کر چکا تھا ۔ اس کی ذات و صفات  کا احاطہ کسی ایک مضمون میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے انشاللہ رفتہ رفتہ اسکی زندگی کے ہر پہلو کو اپنی تحریروں میں اجاگر کرنے کی کوشش کرتا رہوں گا ۔لڑکپن میں ایس ای کالج  ڈیرہ نواب صاحب کے ایک طرحی مشاعرےمیں  جہاں طرح مصرعہ تھا کہ ” اب کیا کہیں کہ درد کہاں ہے کہاں نہیں ”   اس کی جانب سے پڑھا جانے والا  یہ شعر مجھے کبھی نہیں بھولتا ۔

سب  جسم وجان    ہار کے بیٹھے ہیں   ہم  سعید ؔ

اب کیا کہیں کہ درد کہاں ہے کہاں نہیں  

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.