محنتوں کے صلے سے محروم کاشتکار

42

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے کاشتکاروں نے ہمیشہ زرعی پیداوار میں اضافہ کے لئے سخت محنت کرکے ملکی معیشت کو سہارا دیا ہے
اس بار پنجاب میں گندم کی فصل بہت اچھی ہوئی ۔
ریکارڈ پیداوار سے خوراک میں خود کفالت کا ٹارگٹ بھی حاصل کیا مگر کاشتکاروں کے ساتھ دھوکہ ہوا
ان سے مناسب دام پر گندم خریدنے کے سرکاری دعوے دھرے رہ گئے اور حکومتی خرید میں تاخیر سے انکی گندم خراب ہونے سے محنتیں ضائع ہونے لگیں
تو پھر مڈل مین نے اونے پونے گندم خریدنا شروع کردی ۔پنجاب میں گندم کے کاشتکاروں کی فصل پر اٹھنے والی لاگت بھی انھیں نہ ملی ۔اربوں روپے کا نقصان اٹھا کر بھی کاشتکار حوصلہ نہیں ہارے اور اگلی فصل کاشت کرنے کا سلسلہ ہنوز جاری رکھا ہے
حکومتی سطح پر سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ بیرون ملک سے گندم درآمد کی گئی جس کا کوئی جواز نہیں تھا بلکہ غیر ملکی گندم خرید کر زرمبادلہ ضائع کیا گیا
جب صوبے میں ریکارڈ پیداوار ہوچکی تو پنجاب میں سرکاری طور پر یہ اعتراف سامنے آیا کہ پنجاب میں ضرورت سے زیادہ 26ہزار میٹرک ٹن درآمدی گندم موجود ہے جو نگران حکومت نے منگوائی تھی ۔
ایک طرف غیر ملکی گندم خریدی گئی تو دوسری جانب کاشتکاروں کی لگاتار محنت سے صوبے میں گندم کی ریکارڈ فصل تیار ہوئی ،اس پر حکومتی اعلانات کے باوجود کسانوں سے مناسب دام پر بروقت گندم خریداری کا انتظام نہ ہوسکا اور کاشتکاروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔
صرف بہاولپور ڈویژن کے کاشتکاروں کو ایک اندازے کے مطابق 143ارب روپے کا نقصان ہواہے۔اس سال بہاولپور ڈویژن نے6 .43 لاکھ ٹن گند م پیدا کی جو پنجاب کے تمام ڈویژنز میں سب سے زیادہ پیداوار ہے۔
سرکاری ریٹ 3900 روپے فی من تھا جبکہ ایوریج کسانوں نے 2800 روہے فی من گندم فروخت کی۔اس حساب سے صرف بہاولپور ڈویژن کے کسانوں کو 143 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
کسان 143 ارب روپے کے نقصان اٹھاکر بھی اس ملک کے لئے دوبارہ خوراک میں خودکفیل ہونے کی خاطر سخت محنت کررہے ہیں ،غریب کسانوں کے نقصان کے ازالے کی کوئی صورت نہیں ،دوسری طرف اشرافیہ کے شاہی اخراجات آج بھی ملکی خزانے پر بوجھ ہیں ۔
ہمارے خیال میں جب تک کسان کا تعلیم یافتہ بیٹا اپنے کسان باپ کو سوشل میڈیا پر سپورٹ نہیں کرتا۔کسان رلتا رہے گا۔پاکستان کے دو صوبوں میں گندم زیادہ ہوئی پنجاب اور سندھ میں پیدا ہونے والی گندم کو بروقت خریدنے کا انتظام نہ ہوسکا ۔
سرکاری طور پر گندم کی خریداری میں تاخیرپر نوٹس لئے جاتے رہے مگر بیورو کریسی نے کوئی ٹھوس پلان بنایا نہ گندم خریدنے کی خاطر باردانے کی ترسیل کا اہتمام ہوسکا ۔جس پر صرف بہاولپور ہی نہیں دیگر ڈویژنوں میں بھی گندم کے کاشتکاروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ۔
ماہرین کے مطابق پنجاب بھر کے تمام ڈویژنز میں گندم کے کاشتکاروں کو مجموعی طور پر 787ارب روپے کا نقصان ہواہے اور چھوٹے کاشتکاروں کے خرچے بھی پورے نہیں ہوئے بلکہ قرض لیکر فصل کو کھاد اور پانی دینے کا اہتمام اس امید پر کرتے رہے کہ
انکی ہری بھری فصلوں کے بہتر نرخ ملنے پر تمام قرض اتارے جائیں گے مگر کاشتکاروں کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.