تعلیمی بورڈ اور طلباء کے مسائل

21

بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ملتان کا قیام 30 مارچ 1968 کو ہوا۔ یہ گلگشت کالونی، ملتان میں گول باغ کے قریب واقع ہے۔ملتان ڈویژن کے اسکولوں اور کالجوں کے ساتھ ساتھ تمام نجی امیدواروں کے تمام میٹرک (ثانوی) اور انٹرمیڈیٹ (ہائر سیکنڈری) امتحانات (ایف اے / ایف۔ ایس سی۔) لینے کی ذمہ داری اس بورڈ کی ہے۔بد قسمتی سے گزشتہ چار سے پانچ سالوں کے دوران ملتان ثانوی و اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ اپنی یہ ذمہ داری نبھانے میں بری طرح ناکام نظر آرہا ہے۔ملتان بورڈ کے موجودہ عہدے داران کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں نے طلبہ و طالبات کے ساتھ تعلیمی اداروں کے سربراہان ، اساتذہ کرام اور والدین کو بھی پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ہر سال میٹرک کے امتحانات میں کم و بیش 2 لاکھ کے قریب طلبہ و طالبات امتحان دیتے ہیں اسی طرح انٹرمیڈیٹ کے کم و بیش ڈیڑھ سے دو لاکھ طلبہ امتحانات میں حصہ لیتے ہیں۔ان امتحانات کیلئے رجسٹریشن فیس ، امتحانی فیس، سند فیس سمیت مختلف فیسیوں کی مد میں ملتان بورڈ اربوں روپے کا ریونیو اکٹھا کرتا ہے۔سالانہ اربوں روپے کی فیسیں لینے کے باوجود تعلیمی بورڈ کے افسران نے طلبہ اور والدین کے لیے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر رکھے ہیں۔سب سے پہلے فیس جمع کرانے کے مرحلے پر بات کرتا ہوں ایسا لگتا ہے کہ ایچ بی ایل بینک کو ملتان بورڈ نے گود لے رکھا ہے۔میں نے گزشتہ سال بھی اس معاملے پر اپنے کالم کے زریعے سے ملتان بورڈ کے چیرمین حافظ محمد قاسم کی توجہ مبذول کرائی تھی.جس پر انہوں نے ایچ بی ایل بینک کے ساتھ ساتھ ایچ بی ایل کیو کنیکٹ کے ذریعے فیس جمع کرانے کی پالیسی شروع کردی کیا ہی اچھا تھا کہ اگر وہ ایچ بی ایل بینک کے ساتھ بقایا تمام بینکوں کے ذریعے طلبہ سے فیس وصولی شروع کر دیتے تو طلبہ فیسیں جمع کرانے کے لیے ذلیل و خوار نا ہوتے کیونکہ ایچ بی ایل کیو کنیکٹ ایک عام پرائیویٹ شخص کا اکاؤنٹ ہوتا ہے جس پر وہ ملتان بورڈ کے سامنے اور شہر کے چند مختلف مقامات پر ایک ٹیبل اور کرسی رکھ کر طلبہ سے فیس وصول کرتا ہے اور فیس وصول کرنے کے لئے فیس کے علاوہ 50 سے 100 روپے کے درمیان اضافی چارجز لے کر فیسیں وصول کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس سکیورٹی کا بھی کوئی انتظام نہیں ہوتا ہے خدانخواستہ ڈکیتی اور اس طرح کی دیگر واردات ہوجانے کی صورت میں کیا ملتان بورڈ ذمہ دار ہوگا۔ان تعلیمی اداروں کے لیے فیس جمع کرانے کا عمل نہایت تکلیف دہ ہے جن میں سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ایسے میں وہ بچوں کی فیسوں کے لاکھوں روپے اسطرح کیسے پرائیویٹ لوگوں کے حوالے کردیں۔لہذا ایک مرتبہ پھر ملتان تعلیمی بورڈ کے چیئرمین سے اپیل کرتا ہوں کہ براہ کرم ایچ بی ایل کے ساتھ ساتھ دیگر بینکوں کی تمام برانچز کے ذریعے سے فیسیں وصول کرکے طلبہ و طالبات اور والدین کے لیے آسانی پیدا کی جائے.اس کے علاوہ ابھی اس سال ہونے والے میٹرک کے امتحانات میں طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات کے امتحانی مراکز پندرہ سے بیس کلومیٹر کی دوری پر بنا دیے گئے ہیں جس سے طلبہ اور طالبات کو امتحانی مراکز میں آنے جانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے خاص طور پر بچیوں کو امتحانی مراکز دور ہونے کی وجہ سے والد یا بھائی کو اپنی نوکری سے چھٹی کرکے بچیوں کو امتحان دلوانے لیجایا جاتا ہے۔جس سے دیہاڈی دار غریب والدین پریشانی کا شکار ہیں۔برائے کرام طلبہ کے امتحانی مراکز ان منتخب کردہ قریبی مراکز کو ہی بنایا جائے۔اور ایک مرتبہ چیئرمین تعلیمی بورڈ کنٹرولر امتحانات اور سیکرٹری تعلیمی بورڈ کو جا کر ان امتحانی مراکز کا معائنہ بھی کرنا چاہیے بد قسمتی سے ملتان بورڈ کے یہ عہدے داران اپنے ٹھنڈے دفاتر میں بیٹھ کر حالات و واقعات سے بےخبر ہوکر فیصلے کر دیتے ہیں۔ان غلط فیصلوں کا خمیازہ طلبہ طالبات اور ان کے والدین کو بھگتنا پڑتا ہے اکثر امتحانی مراکز کے سامنے گندگی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کے ساتھ ساتھ گندے پانی کے تالاب بنے ہوئے ہیں۔جن سے طلبہ اور طالبات مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ ان امتحانی مراکز میں طالبات کے لیے جو فرنیچر موجود ہے وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ٹوٹی ہوئی کرسیوں اور بینچز پر رکھ کر طلبہ کو پیپرز لکھنے پڑ رہے ہیں۔ یہ تو طلبہ کے مسائل ہیں جو کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں اور ان کی ایک طویل فہرست ہے جسے اگر لکھنے بیٹھوں تو کالم کی بجائے کتاب لکھنی پڑ جائے۔اب انٹرمیڈیٹ کے امتحانات بھی سٹارٹ ہونے والے ہیں جو کہ سخت گرمیوں میں ہونگے خدارا ان امتحانات میں طلباء کو عذاب اور مشکلات سے بچانے کیلیے ہر امتحانی سنٹر کی سہولیات بالخصوص فرنیچر اور بجلی کے متبادل نظام کو اچھی طرح ہر سنٹر میں چیک کیا جائے. اس کے علاوہ ملتان بورڈ سے الحاق شدہ تعلیمی اداروں کے سربراہان بھی بورڈ کی تعلیم دشمن پالیسیوں سے اکتائے ہوئے نظر آرہے ہیں۔میری اس سلسلے میں کچھ تعلیمی اداروں کے سربراہان سے بات چیت ہوئی جس میں انہوں نے تعلیمی بورڈ ملتان کے خلاف شکایت کے انبار لگا دیے۔یہ تعلیمی ادارے الحاق ہونے کی مد میں ہر سال ہزاروں لاکھوں روپے فیسوں کی مد میں ملتان بورڈ کو دیتے ہیں اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بورڈ اپنی ہی جاری کردہ فیسوں کی ویری فیکیشن کی فیس بھی لیتا ہے۔ لیکن ملتان تعلیمی بورڈ کے افسران ذاتی پسند ناپسند کی وجہ سے تعلیمی اداروں کے جائز کاموں میں بھی رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور تعلیمی اداروں کو مختلف ہتھکنڈوں سے پریشان کیا جاتا ہے.میں آخر میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز ، وفاقی و صوبائی وزراء تعلیم اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن سے اپیل کرتا ہوں کہ ملتان تعلیمی بورڈ کے معاملات کو بہتر بنا کر طلبہ کو سہولتیں فراہم کی جائے اور ملتان بورڈ کے عہدے داران کو ٹھنڈے دفاتر سے باہر نکل کر میدان عمل میں کام کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں۔ان اقدامات سے طلبہ و طالبات کو آسانی فراہم کر کے تعلیم اور تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.