حالات کا تقاضا اور عوام کی خواہش

106

ملک پر جب بھی کوئی افتاد پڑی تو محب وطن اور وطن دشمنوں میں فرق واضح ہوتا چلا گیا
،ویسے بھی یہ دانشوروں کے اقوال زریں رہے ہیں کہ مشکل میں ہی دوست اور دشمن کا پتہ چلتا ہے اور واقعی اس وقت ملک پر مشکل ترین وقت آ پڑا ہے ۔
انتہائی نامسائد حالات میں عام انتخابات کا انعقاد ان حالات میں کسی معجزے سے کم نہیں ۔ملک میں جمہوری روایات کے تحت عوام کو ان کی مرضی اور پسند کے رہنماؤں کے اقتدار میں لانے کی مشق ہوئی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام نے ووٹ کئی حصوں میں تقسیم کر دئیے انہیں کسی ایک جماعت پر شائد پوری طرح اعتماد نہیں تھا
اس لئے کئی جماعتوں کو اقتدار تک رسائی کا موقع فراہم کیا گیا ۔
تاہم ایسے مواقعوں پر انتشار اور افراتفری پھیلانے والے ذہن سازی ضرور کرتے رہے مگر عوام کسی کے جھانسے میں نہیں آئے اور حکومت سازی کے عمل کو آگے بڑھنے سے روکنے والوں کی تمام تر کاوشیں بے سود ثابت ہوئیں ۔
الیکشن کو متنازع بنانے کے لئے پروپگنڈے بھی جاری رکھے گئے ۔
اس حوالے سے دنیا میں پاکستان کا امیج خراب کرنے کی منظم مہم تک چلائی گئی لیکن اس مہم جوئی کے نتیجے میں بھی انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ۔
کسی حد تک امریکا نے پاکستان کے حالیہ الیکشن کے حوالے سے اٹھنے والے شور پر کان دھرے اور ان معاملات پر اپنی محتاط رائے بھی دی
امریکی حکام نے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دینے کی بجائے کچھ انتخابی بے قاعدگیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی تشویش بھی ظاہر کردی تاہم اس قضیے کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیکر بحث سمیٹ دی ۔بادی النظر میں تو امریکی حکام نے پاکستان کے حالیہ الیکشن کو متنازع قرار دلوانے کی خاطر پروپیگنڈا مہم چلانے والوں کو بھی کسی حد تک مطمئن کرنے کی کوشش کردی اور نئی منتخب حکومت کے عملی طور پر ہاتھ مضبوط کرنے کی کاوش کر ڈالی ۔چونکہ امریکہ نے حکومت ختم کرنے یا کسی بھی صورت نئے انتخابات کے مطالبے کو یکسر مسترد کردیا ،
امریکہ نے تو سرے سے حالیہ الیکشن میں دھاندلی کا الزام ہی رد کردیا ،لفظ “دھاندلی “کہیں کچھ “بے قاعدگیوں “کا تذکرہ کیا ہے جو ایسے ہر جمہوری عمل میں سرزد ہو جایا کرتی ہیں انہیں دھاندلی نہیں کہا جاسکتا ۔
دوسرا امریکا نے اس پر ایسا کوئی سخت بیانیہ بھی نہیں بنایا جس سے نئی حکومت کو ختم کرنے اور نئے الیکشن کی صورت نکالنے کے معنی ومفہوم نکالے جاسکتے ۔
امریکا عملی طور پر ایک گارنٹر کے طور پر پاکستان اور آئی ایم ایف کی ڈیل کو کامیابی سے ہمکنار کروانے کی تگ و دو کا حصہ بنا ہوا ہے اور موجودہ حکومت کو مستحکم دیکھنے کا متمنی نظر آتا ہے،کیونکہ عوام کی منتخب سیاسی جماعتوں کے ملاپ سے وجود میں آنے والی اس حکومت کو کمزور کرنا خود امریکا کے مفاد میں نہیں
اس وقت وہ خطے کی صورتحال میں پاکستان کا اتحادی بن کر ہی چین کے نئے بلاک کا مقابلہ کرسکتا ہے جس کے لئے معاشی لحاظ سے کمزور پاکستان اسکے کسی کام کا نہیں ۔دوسرا پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنے والے کون ہیں اور امریکا ان کے لئے بھی نرم گوشہ کیوں رکھتا ہے
یہ ایک الگ موضوع ہے تاہم اس حوالے سے اتنی وضاحت ضرور کرنا چاہوں گا کہ امریکا کی داخلی طور پر بھی کچھ سیاسی مصلحتیں ہیں ،امریکہ میں انتخابی سیاست کے تقاضے کچھ اور طرح کے ہیں ۔
امریکی کانگریس میں لابی بنانے والوں کی یہ کامیابی تھی کہ وہ اپنا بیانیہ پہنچا سکے ۔سیاست میں بیانیہ اور عملی اقدامات الگ ہونے پر اصلیت کا پتہ چلتا ہے یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے بس کسی لابی کو بیانیہ پر ٹرخایا جاتا ہے تو کسی کے شانہ بشانہ چلنے کی تیاری نظر آتی ہے ۔پاکستان میں نئی حکومت کو چند ماہ میں گھر بھیجنے کے دعوے بھی عملی طور پر فہم وفراست سے عاری ہیں ۔
پاکستان میں ن لیگ کی سربراہی میں قائم ہونے والی نئی حکومت نے انتہائی دور اندیشی اور معاملہ فہمی کے ساتھ معیشت کو ٹریک پر لانے کی خاطر عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ڈیل کو کامیابی سے آگے بڑھایا ہے ۔اس وقت محض معیشت کو سنبھالا دینا اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنا ہی بڑا چیلنج نہیں ہے بلکہ ملک کے اندر جو قوتیں انتشار اور گھیراؤ جلاؤ کر کے ریاستی سسٹم کو مفلوج کرنا چاہتی ہیں، ان کی ہینڈلنگ بھی نئی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
اس وقت دہشتگردی کی نئی لہر بھی نئی حکومت کے لئے سب سے بڑا چلینج بن گئی ہے ۔ایسے حالات میں اب سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے والوں کا بیانیہ تو کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں ہوگا ۔
قوم کی جانب سے ووٹوں کی تقسیم کا مطلب یہی ہے کہ پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں ملکر کام کریں ۔بلاشبہ پاکستان ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے
اس وقت سیاسی جماعتوں کی جانب سے آپسی اختلافات اور لڑائیاں ملکی مفاد کیلئے نقصان دہ ہیں ۔اقتدار سے محرومی کے رنج پر ملک کو نقصان پہنچانے کی روایت اب دفن ہونی چاہئے ۔
سیاسی منظر نامہ واضح ہوگیا ہے ۔حالات اب تمام محب وطن سیاستدانوں کے ملکر چلنے کا تقاضا کررہے ہیں اور عوام کی خواہش بھی یہی ہے ۔

25/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-4-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.