شاہ زیب اسلم شہید ( کُٹہڑہ)

31

17 فروری کی شام فیسبک پر 29 سالہ شاہ زیب کے وانا (وزیرستان) میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران شہید ہوجانے کی خبر بجلی بن کر گری۔
شہادت بے شک ایک بہت بڑا عزاز ہے جوکہ والدین و علاقہ دونوں کے لیے باعث فخر ہے
مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ والدین پر ایک سخت آزمائش بھی ہے کہ اک جوان بیٹا اپنے ہاتھوں مٹی کے حوالے کیا جائے۔


شاہ زیب کی شہادت کا سنتے ہی کچھ دیر تو دماغ ماؤف رہا لیکن پھر زہن کی سی ڈی پر آنکھوں کے سامنے اک فلم چل پڑی۔
شاہ زیب میرا اک بہت پیارا شاگرد تھا۔
گورنمنٹ ہائی سکول ہملٹ غازی میں میری کم و بیش اٹھارہ سالہ معلمی میں میرا زیادہ وقت شاہ زیب کے ساتھ گزرا۔
اس کا والد محمد اسلم اسی سکول میں درجہ چہارم ملازم تھا اور اس سے میرا تعلق دوستوں والا تھا۔
محمد اسلم اپنی جگہ اک یار باش، مخلص اور دید کرنے والا انسان جو کہ غربت میں بھی بہت امیر ہے۔
اس نے اپنے بچوں محمد سہیل اسلم اور محمد شاہ زیب اسلم کی پرورش اپنی بساط سے بڑھ کر اک دوست کی طرح کی۔
شاہ زیب چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کے بہت قریب تھا۔
آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان دونوں میں باپ بیٹے کا نہیں
بلکہ دوستوں جیسا تعلق تھا۔ اللہ میرے دوست کو اس آزمائش و اعزاز دونوں میں سرخرو رکھے۔۔
آمین ثم آمین۔
شاہ زیب شروع سے ہی اک دلاور بچہ تھا۔ اس کہ طبیعت میں لا ابالی پن نمایاں تھا۔
والد کی طرف سے دوستانہ رویہ کے باوجود اس کی تربیت میں کوئ خلا نہ تھا۔
اسے بڑوں کا احترام اور یاروں سے یاری میں اوج کمال حاصل تھا۔ پڑھائی میں متوسط لیکن تعبداری میں اعلی ترین تھا۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ اور آنکھوں اک خاص چمک اور پیار و احترام سے
مزین عادات اساتذہ میں اس کے لیے اک دعائیہ چاہت اجاگر کرتی تھیں۔
مجھے آج بھی یاد ہے وہ دودھ مکھن سے پلا مسکراتے چہرے والا شاہ زیب۔
چونکہ اس کے والد سے میری دوستی تھی جس کا اسے مکمل ادراک تھا
اس لیے اول تو وہ شکایت کا موقع ہی نہ دیتا
اور اگر کبھی ہلکی پھلکی سزا تک بات پہنچ جاتی تو وہ اتنی محبت سے سر تسلیم خم کرتا
کہ میرا غصہ ہی ختم ہو جاتا۔
ایک بار غالباََ ششم یا ہفتم کے امتحانات میں مائی بیسٹ ٹیچر کے مضمون میں
لکھائے گئے نام کی جگہ میرا نام لکھ دیا اور ہفتوں مجھ سے شرما کر اِدھر اُدھر ہوتا رہا۔
شروع سے ہی اسے باڈی بلڈنگ اور آرمی پسند تھے۔
وہ اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ فوجی بننے اور شوق شہادت کا اظہار کرتا رہتا۔
ایک بار میں کلاس میں داخل ہوا تو وہ کتاب سے بندوق بنائے دوستوں کے ساتھ فوجی فوجی کھیل رہا تھا۔
یادوں کے جھروکوں میں وہ چھوٹا سا گول مٹول اور معصوم مسکراہٹ،
موٹے گالوں، چمکتی آنکھوں والا سانولا سا محبت بھرا شاہ زیب اب بھی کھیلتا دوڑتا باتیں کرتا محسوس ہوتا ہے۔
پھر وقت بدلا اور میری اس سکول سے تبدیلی ہوگئ۔ اس کے بعد چند بار وہ ملا
تو اک کھلنڈرا سا لا ابالی کڑیل جوان تھا جس کی مسکراہٹ اور معصومیت والی تابعداری اسی طرح برقرار تھی۔
آج سے پانچ سال پہلے وہ آرمی میں بطور سپاہی بھرتی ہوا۔
اپنے والدین سے ہمیشہ اپنے لیے شہادت کی خواہش کا اظہار کرتا۔
اسے جام شہادت نوش کرنے کا اتنا شوق تھا کہ فوج میں بھرتی کے ٹیسٹوں کا علم ہوتے ہی
جماعت نہم اور دھم میں وہ اپنا ایک ایک سالانہ پرچہ مِس کر کے ٹیسٹ دینے مردان اور راولپنڈی پہنچ گیا۔
اس کے ساتھی فوجی بتاتے ہیں کہ وانا آپریشن کے لیے جانے پر وہ بہت زیادہ خوش تھا۔
دھشت گردوں کے خلاف ہر آپریشن میں صف اول میں ہونے کی وجہ سے اس کے آفیسرز بھی اسے بہت پیار کرتے تھے۔
چھٹیوں میں اگر کوئی ایمرجنسی کال آتی تو وہ صوبہ بھر سے اپنے ساتھیوں کو تیار کر کے پہنچتا۔
فوج تو فوج وہ گاؤں محلہ میں بھی اکیلا تین چار جوانوں جتنا کام کر کے مرکز نگاہ بن جاتا اور دعائیں سمیٹتا تھا۔
اس کے والد اور دوستوں کے موبائلز پر موجود اس کے وائس میسجز سن کر
مجھے اندازہ ہوا کہ وہ شہادت کا کتنا شوقین تھا۔
وہ یہی اظہار کرتا کہ اسے کسی فلمی ہیرو جیسا اکیلا درجنوں دھشت گردوں
کو واصل جہنم کرنے کا موقع نہیں مل رہا۔ وہ اسی جنون میں عام سپاہی سے
ضرار رجمنٹ کے کمانڈو کا ٹیسٹ پاس کر کے وہاں پہنچا۔
آفیسرز کے مطابق آنے والے چند ہفتوں میں اسکی آئی ایس آئی سروسز کےلیے بھی سلیکشن یقینی تھی ۔
وہ اپنے چلبلے انداز اور بہادری کی بنا پر اپنے ساتھیوں اور افسران کی آنکھ کا تارا تھا۔
اس کا شوقِ شہادت اور ہیرو جیسی موت کا دیرینہ خواب بالآخر پورا ہوا۔ 17 فروری کو دن دس بجے دھشت گردوں کے حملہ کو جاں فشانی سے پسپا کرتے ہوئے اس نے سات دھشت گردوں کو واصل جہنم کیا۔
دو دھشت گرد کسی ٹیلے یا دیوار کے پیچھے خاموشی سے چھپے تھے۔
جن میں سے ایک کی گولی اس کے دل پر آ لگی اور وہ موقع پر ہی شہید ہوگیا۔
اس کے ساتھیوں کو آفیسر نے حکم دیا کہ اس ایک گولی کے بدلے ان دونوں کے جسموں کو چھلنی کیے بغیر ہم پر سکون حرام ہے۔
پھر سب نے اس وقت تک دھشت گردوں کا پیچھا کیا جب تک یہ قسم پوری نہ کر لی۔
شہید کے ساتھی بتاتے ہیں کہ ہم نے زمین پر لیٹ کر کرالنگ کر کے دھشت گردوں تک پہنچنا چاہا لیکن شاہ زیب نے جواں مردی سے سینہ تان کر ان پر ہلہ بولا اور اپنے تئیں سب کا خاتمہ کر دیا
مگر خاموشی سے چھپے دو دشمنوں میں سے ایک کی گولی کا نشانہ بن گیا۔
اس کے والد محمد اسلم کے بقول ہم اب اس کی شادی کے لیے سوچ رہے تھے کہ اس نے موت کو اپنی محبوبہ بنا کر گلے لگا لیا اور امر ہو گیا۔
شہید کا جسد خاکی رات گئے پہنچا اور 18 فروری کو شہید کے دیدار کیلیے سارا علاقہ امڈ آیا۔ فوج نے مکمل اعزاز کے ساتھ شہید کو گاؤں کٹہڑہ تک پہنچایا اور دفن کیا۔
آج اک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی دعا کیلیے آنے والوں اور گھر کے پاس ہی شہید کی آرام گاہ پر حاضری دینے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
شہید تو زندہ اور سیدھا جنتی ہوتا ہے اس لیے اسے ہماری دعا کی ضرورت شاید نہ ہو
لیکن پھر بھی دعا ہے کہ اللہ اس کو اعلی ترین جنت کے ساتھ ساتھ اس کے والدین و قریبی رشتوں کو صبر جمیل عطا کرے۔۔
آمین ثم آمین۔
والدین ، اساتذہ اور علاقہ کھڑی گندگر کو ناز ہے تم پر شاہ زیب اسلم.

تحریر۔۔عاصم نواز طاہرخیلی

27/02/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-20-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.