تکمیل  پاکستان کا سفر

احساس کے انداز تحریر :۔ جاویدایازخا ن

1

ہمارے اباجی بڑے زور شور سے یوم آزادی پاکستان منانے کا اہتمام کرتے تھے وہ اس دن کو اظہار تشکر سمجھتے ہوۓ ہمیشہ تقریبات منعقد کیا کرتے  تھے لیکن ساتھ ساتھ اس موقع پر وہ بےحد افسردہ اور سوگوار بھی دکھائی دیتےتھے ۔اس وجہ ان اس تحریک کے دوران ان کے معصوم بیوی بچوں  اور بے شمار عزیز واقارب کی شہادت اور ان کے گھر اور گاوں کی تباہی  کا کبھی نہ بھولنے والا المناک واقعہ تھا جو اس سفر میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکےسرخرو ہوۓ ۔یہ کیفیت صرف ان کی ہی نہیں تھی بلکہ پاکستان ہجرت کرنے والے بہت سے لوگوں  کے دلوں میں ان روشن چراغوں کی کی یاد  ہوتی ہے جو شریک سفر تو تھے مگر منزل پر نہ پہنچ سکے ۔وہ فرماتے تھے کہ آزادی کا جشن جب جھنڈوں ،چراغوں اور ترانوں سے روشن ہوتا ہے تو شہیدوںکی قبروں پر بھی مٹی کی خوشبو کے ساتھ خون کی سرخی یاد دلاتی ہے کہ یہ آزادی کتنی قیمتی ہے اور اسکی بنیادوں میں کتنا خون شامل ہے؟ یہ سوچ ہمیں خوشی اور کرب کے ایسے سنگم پر کھڑا کردیتی ہے ۔جہاں خوشی اس لیے کہ ہم آزاد ہیں اور کرب اس لیے کہ اس آزادی کا سفر کتنی جانوں ،کتنے بچھڑنے  اور کتنی قربانیوں سے گزر کر مکمل ہوا ہے ۔خود مختیاری کا یہ دن ایک ایسے دکھ کا بھی پیغام لاتا ہے جو شہیدوں اور قربانیاں دینے والوں کی یاد سے جڑا ہے چودہ اگست ۱۹۴۷ء قربانیوں اور جدجہد کی وہ  لہو لہو  داستان ہے جو ابدتک دنیا کی تاریخ کا حصہ رہے گی ۔یہ مسلمانان برصغیر کے خون کی وہ لکیر ہے۔ جس نے برصغیر کےمسلمانون نے اپنی آزادی اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک الگ مملکت اور وطن کا نقشہ اپنے اور اپنے بچوں کے خون سے دنیا کے نقشے پر ابھارا  ۔یہی وہ ہمارے آباو اجداد تھے جن کی قربانیوں کے صدقے میں ہم آج پاکستان کی آزاد فضاوں میں سانس لے رہے ہیں  دراصل آج کا دن انہی گمنام شہیدوں ،غازیوں  اور مظلوم خواتین اور بچوں  کی بے مثال جدوجہد اور قربا نیوں کو یا دکرنے اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔آزادی کی قیمت کا تعین ہمیشہ آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیوں سے ہی کیا جا  سکتا ہے ۔ایک جانب ہمیں اپنی آزادی کی خوشی ضرور ہے مگر ہم اپنے ان اجداد کی بہادری کی خوں ریز داستانوں کو کیسے بھلا سکتے ہیں ۔جنہوں نے ہمارے آج کے سکھ کے لیے اپنا سب کچھ اس دھرتی کے حصول  کی جدوجہد پر نثا رکردیا ۔کیا وہ یہ سب کچھ  ایک زمین کے ٹکڑے کے لیے کر رہے تھے ؟  ہرگز نہیں وہ اپنی شناخت اور اپنی آزادی  اور اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کی بقا اور سلامتی کے لیے لڑ رہے تھے  وہ یہ سب اللہ اور اسکے رسول کے دین  کی حاکمیت کے لیے کر رہے تھے ۔قیام پاکستان کی پوری تحریک مسلمان عورتوں بچوں اور بزرگوں کے کے خون سے لبریز ہے ۔ان کی قربانیوں کی ہر داستان لہو لہو  اور دل خراش ہے ۔۱۴ اگست کی صبح جب فضاوں میں سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں ،جب گلی کوچوں میں آزادی کے ترانے گونجتے ہیں ،تو دل بےساختہ شکر اور مسرت سے بھر جاتا ہے ۔مگر اسی خوشی کے ساتھ ساتھ ایک تلخ یاد بھی دل کے نہاں خانے سے سر اٹھاتی ہے ۔۔ان اپنوں کی یاد جو اس آزادی کی صبح دیکھنے سے پہلے ہی مٹی اوڑھ کر سو گئے ۔یہ وہ چراغ تھے جنہوں نے اپنی لو سے اندھیروں کو چیر ڈالا ۔یہ وہ خواب دیکھنے والے تھے جنہون نے اپنی نیندوں کا سودا ہماری بیداری کے لیے کر لیا ۔ان کی قربانیوں کے بغیر شاید یہ صبح کبھی طلوع نہ ہوتی مگر اس صبح کی روشنی ہمیشہ ان کے خون کی سرخی میں رنگی رہے گی ۔

ایسا ہی مشرقی پنجاب کا ہمارا   ایک گاوں اکبر پور باروٹہ تھا جو مشرقی پنجاب کا خالص مسلمان آبادی کا آخری ایسا گاوں تھا جسے پاکستان بننے سے قبل ہی چھوٹا پاکستان کہا جاتا تھا ۔ہندوں کی ناپاک ذہنیت یہ ہے کہ وہ چھوٹا پاکستان ہو یا بڑا پاکستان اسے دل سے کبھی قبول نہیں  کر تے ۔اسی لیے اس گاوں کا بچہ بچہ ان کے لیے کسی صورت قابل قبول نہ تھا ۔وہ اس گاوں اور اسکی آبادی کے   صدیوں  پہلے سے درپے تھے ۔اسی لیے اس کی زمین پر آزادی کی جنگ لڑی گئی ۔آئیں اس یوم آزادی پر ایک بار پھر وہاں کے مسلمانوں داستان شجاعت کو دوہرائیں تاکہ آنے والی نسل جان سکے کہ یہ پاکستان کتنی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے ۔آئیں سلام پیش کریں ان تمام شہیدوں کو جن کے خون سے تعمیر بنیادوں پر   پاکستان  کی عمارت آج بھی کھڑی نظر آتی ہے ۔جنہوں نےحصول  پاکستان کے لیے جان مال اور اولاد قربان کردی ۔    

ہمارا گاوں اکبر پور باروٹہ چاروں جانب سے ہندوں آبادی میں گھرا واحد مسلمان گاوں تھا ہندو اسے” چھوٹا پاکستان ” کہتے تھے ۔اردگرد کے  ہندو مظالم سے تنگ سب غریب مسلمان یہاں پناہ لیتے تھے۔ یہاں کے بزرگ میرے دادا  محبوب خان تھے جو اپنے خاندان اور گاوں والوں کے ہمراہ تین دن سے ہندوں کے حملوں کا مقابلہ کر رہے تھے ۔ ارد گرد کے گاوں سے آۓ بے شمار مسلمان  شہیدوں کی بیوائیں اور  بچے ان کی پناہ گاہ میں موجود تھے ۔ایک طویل لڑائی کے بعد اس رات گاوں کے اکثر لوگ اس “چھوٹے پاکستان “سے” بڑے پاکستان “کی جانب اپنے سفر کا آغاز کر چکے تھے ۔کیونکہ ہندوں سے مزید لڑنے کی سکت نہ تھی کیونکہ اب ہندوں کے ہمراہ ڈوگرہ فوج بھی شامل ہو چکی تھی ۔ مگر گاوں کے سربراہ محبوب خان شہید نے اپنے گھر والوں کے ہمراہ  پناہ گزینوں کی حفاظت کے لیے گاوں میں ہی ٹھہرنے کا فیصلہ کیا  کیونکہ گاوں میں ان کے ہمراہ  بے شمار مسلمان شہدا ء کی بیوائیں ،ان کے یتیم بچے اور میری اپنی والدہ  جو سفر کے قابل نہ تھیں اور میرے  دو بہن بھائی  خالد اور خدیجہ بھی گاوں میں موجود تھے ۔اس پورے گاوں کے افراد کو حملہ کرکے شہید کردیا گیا ،خواتین کی لاشوں سے گاوں کے کنویں بھر گئے ۔بےشمار خواتین اغوا کر لی گیں ،گاوں کی زمین  پر معصوم بچوں کے اعضاء بکھرگئے  اور پورا گاوں لوٹنے کے بعد جلا کر راکھ کر دیا گیا ۔واقعات اتنے درد ناک ہیں کہ بیان کرتے ہوۓ دل لرزتا ہے ۔یہ وہی گاوں تھا جو چھوٹا پاکستان کہلاتا تھا اور  جس کے تمام لوگوں نے “بڑے پاکستان “ کے قیام اور اس کی جانب ہجرت   کےدوران اپنی جانوں کا نذارنہ پیش کیا  اور پاکستان کی بنیادوں میں اپنا لہو شامل کر کے امر ہو گئے ۔یہ واحد گاوں تھا جو مکمل طور پر شہید کردیا گیا ۔اکبر پور باروٹہ اور اس جیسے کئی شہروں کی مٹی سے ان کے شہیدوں کے خون کی خوشبو قیامت تک آتی رہے گی ۔ گاوں کے بے شمار لوگوں کے ساتھ میرے دو بہن بھائی  ، ماں ،عزیز واقارب اور دادا محبوب خان  کی شہادت کا دکھ گاوں  اکبر پور باروٹہ کی تباہی وبربادی کا سانحہ اور غم  ہماری تیسری  نسل تک آپہنچا ہے۔ ہر یوم پاکستان پر  آج بھی ان کا ذکر اور دکھ ہمیں اور ہمارے بزرگوں کو سوگوار کر دیتا ہے۔

پاکستان کا سفر آج بھی جاری ہے اس کی حفاظت اور بقا اولین فرض ہے ۔اس کا استحکام ہماری ذمہ داری ہے کیونکہ ہمیں اپنے شہداء کو ایک دن ضرور جواب دینا ہے کہ ان کی نسلوں نےاپنی ذمہ داری پوری کی یا نہیں ؟کیا ہم نے پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے ؟پاکستان کی نئی نسل پر ذمہ داری ہے کہ  وہ پاکستان کی ترقی میں اپنا انفرادی اور اجتماعی مثبت کردار ادا کرے ،قومی یکجہاتی کو فروغ دے ،ملک کے وسائل کا تحفظ کرے ،پاکستان کی حفاظت ،بقا اور معاشی ترقی کے لیے مشکلات جھیلنے کا حوصلہ اور ذاتی فائدے پر قومی مفاد کو ترجیح دے ،سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرے ،خدمت خلق کو شعار بناۓ ،اپنی اخلاقی ،مذہبی اور روائتی اقدار کی پاسداری کرے ،جدید علم اور شعور کی جستجو کرے اور قربانی اور استقامت کو فروغ دے تب ہی تکمیل پاکستان کا فرض ادا ہو سکتا ہے ۔ پاکستان جو ہماری پہچان ہے ،ہمار ایمان ہے بلکہ ہماری جان ہے ہماری آخری پناہ ہے اس کا تحفظ ،ترقی ،استحکام اور بقاکے لیے جدوجہد ہمارا قومی ودینی فریضہ ہے  ۔آج میں سوچتا ہوں کہ کیا  ہم  یہ فرض ادا کر رہے ہیں  ؟کیا پاکستان بنانے کا مقصد حاصل کر پاےُ ہیں ؟   آخر ایک بڑے اور عظیم  پاکستان کی تکمیل کی جانب یہ سفر کب تک جاری رہے گا ؟   

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.