جشن آزادی منائیں کس طرح ؟
داستان غم سنائیں،کس طرح ؟
یہ ھے ماہ اگست
آوء انھیں یاد کریں
جن کے لھو کی تحریر
صبح آزادی کا عنوان بنی
سجدہ شکر بجا لائیں کہ
آزاد ھیں ھم
آج بےگھر نھیں ھم،
اھل فلسطیں کی طرح
تحریک پاکستان کے ایک شھید ،سید عظمت علی واسطی علیگ ایڈووکیٹ کا تعلق شاہ آباد،ضلع کرنال کے معزز زمیندار گھرانے سے تھا، آپ کے والد سید لیاقت علی
مسقط میں مہتمم مالیات تھے،اور تایا خان بہادر الللہ بندہ ایران میں حکومت برطانیہ کے پولیٹیکل اٹاچی اور وائس کونسلیٹ تھے۔
عظمت واسطی نے1933
میں کرنال میں وکالت شروع کی۔اپنی بے لوث سما جی و قومی خدمات کی بدولت وہ1936ءمیں ڈسٹرکٹ بورڈ کرنال کے بلا مقابلہ ممبر منتخب ھو گئے۔
1937ء میں آپ مسلم لیگ ضلع کرنال کے جنرل سیکرٹر
ی منتخب ھوئے۔1939ء میں آ پ کو مسلم لیگ،انبالہ ڈویژن کا چیف آرگنائزر مقرر کیا گیا،جہاں کے صدر سید محمد حنیف علیگ،ایڈوکیٹ تھے۔
وہ بتلاتے تھے کی مسلم لیگ کی تنظیم سازی اور تحریک پاکستان میں واسطی صاحب کی سر گرمیوں کی وجہ سے ھندو مہا سبھا نے ان کا نام،ھٹ لسٹ پر سر فہرست رکھا ھوا تھا۔ ھما رے خبر دار کر نے پر،وہ کہتے تھےکہ جب تک کرنال میں ایک بھی مسلمان موجود ھے اوران سب کے بہ حفاظت پا کستان پہنچنے کا بندو بست نھیں ھو جاتا،میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔
ایک دن حسب معمول جب عظمت واسطی،پناہ گزینوں کے کیمپ واقع پیپلی علاقہ کور کشتیر میں
راشن پہنچانے کے لئیے روانہ ھوئے تو بقول سید سرفراز واسطی،انسپکٹر اوف سکولز،نہر جمن غربی المعروف جھال اچانہ کے پل پر ڈی۔سی روشن لال کے منصوبے کے تحت،اس کے تیار کردہ غنڈوں نے،عظمت واسطی اور ان کے ساتھیوں کے سینوں کو نیزوں سے چھلنی کر کے،ان کی لاشوں کو نہر میں بہا دیا۔۔۔ع۔۔۔۔۔
فخر وطن تھا آہ،1947ء
وہ ھے شھید غربت1366ھ
ان سب کی شہادت کی خبر پھیلتے ھی لوگ مشتعل ھو گئے،اس لئیے کرنال میں کرفئیو لگا دیا گیا۔لیکن اس کے باوجود نماز عید الفطر کے دوران،نمازیوں کا مہا سبھائی غنڈوں نے قتل عام کیا۔
مسلمانوں کے گھر وں کو جب شر پسندوں نے نذر آتش کرنا اور لوٹنا شروع کیا تب سرفراز واسطی کے بہنوئی، شاکر شاہ اپنے اھل خانہ کے ھمراہ لاھور کی ٹرین میں سوار ھو گئے ۔۔۔
راستے میں جگہ جگہ،انھوں نے لاشیں دیکھیں یا زخمیوں کو تڑپتا ھوا پایا۔ریلوے لائین کے ساتھ،ساتھ قافلوں کی شکل میں پیدل اور بیل گاڑیوں میں،لوگ پاکستان کی طرف رواں دواں تھے، جن میں سے اکثر کا سامان لوٹ لیا گیا،بہت سے مارے گئے۔متعدد کی بچیوں کو غنڈے اسلحے کی نوک پر اٹھا کر لے گئے۔
خدا خدا کر کے،بچ بچا کر شاہ جی لاھور والٹن کیمپ میں پہنچ گئے ۔وھاں یتیم اور بے سہارا بچیوں کو سہارا دینے اور ان کو با عزت رکھنے کے لئیے مقامی لوگ وھیں نکاح کر کے،
کیمپ سے لے جاتے لیکن کچھ دنوں کے بعد کیمپ کے رضا کار سید قاسم محمود(بعد ازاں معروف رائیٹر و شاھکار کتب کے پبلشر) کو جب یہ معلوم ھوا کہ ان معصوم دلھنوں کو ان کے نام نہاد شوھروں نے ڈائریکٹ بازار حسن میں بٹھا دیا ھے ،جو غیر مسلمز خواتین کے بھارت چلے جانے کے بعد ویران پڑے تھے،تب انھوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس شرم ناک صورت حال کے بارے میں خط لکھا،جسے پڑھ کر بعد از تحقیقات وہ خود والٹن کیمپ پہنچے۔
جن خبیثو ں کے نکاح ھو رھے تھے،انھیں،اسی وقت گرفتار کروایا اور حکم دیا کہ اب کسی کا بھی نکاح کیمپ میں نھیں ھو گا۔ یوں باقی بے آسرا بچیاں بے غیر توں کے شر سے بچی رھیں۔
کیمپ والوں نے شاہ جی اور ان کی فیملی کو سرگودھا جانے والی ٹرین میں سوار کرادیا۔جب وہ سٹیشن سے باھر نکلے تو ایک ھندو وکیل،ایم۔ایل،سا
ھنی نے ان سے پوچھا کہ کس شہر سے آرھے ھیں؟
یہ سن کر کہ کرنا ل سے آرھے ھیں،انھوں نے پو چھا،
کیا عظمت واسطی ایڈووکیٹ کو جانتے ھیں؟
توشاہ جی نے اپنی مسز کی طرف اشارہ کر کے بتلایا کہ یہ ان کی کزن ھیں۔”
یہ سن کر ساھنی صاحب نے تانگے والے کو کرایہ دے کر سمجھایا کہ انھیں 6 بلاک چوک کے کارنر والے مکان نمبر 74 پر لے کر پہنچو، میں کار میں وھیں جا رھا ھوں۔جب تانگہ وھاں پہنچا تو ساھنی صاحب اپنی بیگم کے ھمراہ وھاں موجود تھے۔
انھوں نے اس کو نے والے گھر کی چابی ،شاہ جی کو دے کر کہا کہ اب یہ گھر آ پ کا ھے،میں 5 بلا ک میں رھتا ھوں،جس چیز کی جب بھی ضرورت ھو،بلا تکلف بتلا دیں۔۔کل کچہری بار روم میں آکر مجھ سے مل لیں۔تاکہ یہ گھر آپ کے نام الاٹ کروا سکوں۔
کرنال سے فسادیوں کے ڈر سے گھر بار چھوڑ کر سر گودھا آ نے والے پناہ گیر کو ھندو وکیل کی بدولت کچہری بازار سے متصل گھر بھی مل گیا اور زرعی اراضی بھی الاٹ ھو گئی۔
جب تک شاہ جی زندہ رھے وکیل صاحب اور ان کے خاندان کو دعائیں دیتے رھے اب ان کے وارثان،خاندان ساھنی کے لئیے دعا گو ھیں۔
وہ کہا کرتے تھے کہ میں سیکولر ھو ں،جس کا مطلب لادین نھیں بلکہ لکم دینکم ولی دین ھے۔ یعنی تمھارے لئے تمھارا دین اور میرے لئیے،میرا دین۔ مذھب سب اچھے ھیں لیکن ان کی تعلیمات پر عمل نہ ھندو کر
تے ھیں اور نہ ھی مسلمان ۔جب تعلیمات مذھب پر سب عمل شروع کردیں گے تو ھر ملک فلاحی مملکت بن جانے گا۔۔ع۔۔
مذھب نھیں سکھاتا،آپس میں بیر رکھنا