14 اگست.پاکستان کا یومِ آزادی اور تابناک مستقبل کے ساتھ بیرونی چالیں اور اندرونی دیمک

تحریر شبانہ ایاز shabanaayazpak@gmail.com

2

14 اگست 1947 کی صبح نے برصغیر کے مسلمانوں کے طویل اور تاریخی جدوجہد کو سرِِ منزل تک پہنچایا۔ اس دن کا مطلب صرف عبوری سیاسی تبدیلی نہیں تھا بلکہ ایک قوم کی خودی، نظریاتی شناخت اور مستقبل کو ازسرِ نو ترتیب دینے کا وعدہ بھی تھا۔
آج، 2025 میں جہاں قومی عزائم اور امیدیں برقرار ہیں، وہیں حالات اور جغرافیائی حقائق نے ہمیں ایسی نئی معاشی و جیو اسٹریٹجک راہیں بھی دی ہیں جن پر سنجیدہ قومی پالیسی، شفافیت اور عوامی مصلحت کے ساتھ چل کر ہم حقیقی ترقی حاصل کر سکتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں معدنی وسائل، خاص طور پر نایاب زمینی عناصر (ریئر ارتھ منرلز) اور توانائی میں دریافتیں اس امید کو تقویت دیتی ہیں — مگر ساتھ ہی بیرونی مداخلت، سیاسی مفادات، کرپشن اور علاقائی تنازعات جیسے سنگین خطرات بھی ہیں جن سے نبردآزما ہونا ضروری ہے۔

پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے ،اسی وجہ سے بے شمار مسائل کا شکار بھی ہے۔ائیے بتاتے ہیں کہ کیسے۔۔۔

1.⁠ ⁠قدرتی وسائل: موقع یا امتحان؟

پاکستان کے معدنی نقشے پر گزشتہ پانچ سال میں جو اطلاعات آئیں وہ ایک نئی اقتصادی افق کا عندیہ دیتی ہیں۔ حکومت و نجی شعبہ نے حالیہ سنگ میلوں کو طے کرتے ہوئے پاکستان مینرلز انویسٹمنٹ فورم (PMIF25) جیسی کوششیں شروع کیں تاکہ بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے اور خام مال کی کان کنی کے ساتھ ملک میں ویلیو ایڈڈ انڈسٹریاں بھی قائم ہوں۔ اس فورم اور متعلقہ حکومتی اعلان نے عالمی سرمایہ کاروں کی توجہ بلاشبہ پاکستان کی طرف مبذول کرائی ہے۔

ریئر ارتھ منرلز (مثلاً لیتھیم، اینٹیمونی، وغیرہ) اور دیگر قیمتی دھاتوں کے ابتدائی سروے میں شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں امید افزا انومالیز دکھائی گئی ہیں۔ ریسرچ و تجزیاتی رپورٹس یہ کہتی ہیں کہ ابھی تک مقدار کا حتمی اندازہ طے شدہ نہیں مگر ممکنہ ذخائر عالمی توانائی اور ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کے لیے اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں۔ اسی پس منظر میں Reko Diq جیسے بڑے منصوبے (جو تانبے اور سونے کے بڑے ذخائر ہیں) پر بین الاقوامی مالی شراکت داری اور سرمایہ کاری کی باتیں ہو رہی ہیں، جو اگر منصوبے کے تقاضے شفاف اور مقامی مفادات کے تحفظ کے ساتھ پوری ہوں تو اربوں ڈالر کی پیداوار اور بہت طویل مدتی روزگار فراہم کر سکتے ہیں۔

اہم نکتہ (شواہد کے ساتھ): حکومت نے 2025 میں مخصوص فورمز اور پالیسی ڈھانچوں کے ذریعے بیرونی سرمایہ کاری کو مدعو کیا، اور عالمی کمپنیاں پاکستان کے معدنی وسائل میں گہری دلچسپی لے رہی ہیں — اس منظرنامے میں شفافیت، مقامی فائدہ اور ماحولیات کا تحفظ بنیادی ضرورت بن جاتا ہے۔

2.⁠ ⁠توانائی دریافتیں: خودکفالت کی سمت۔۔۔

توانائی کے شعبے میں بھی 2024-25 میں خوش آئند خبریں آئیں۔ ریاستی کمپنی OGDCL اور دیگر اداروں نے سندھ اور شمالی علاقہ جات میں نئے انکشافات رپورٹ کیے — مثال کے طور پر Faakir-1 اور Tando Allah Yar (Chakar–1, دیگر TAY EL) وغیرہ میں گیس و تیل کی دریافتیں۔ ان دریافتوں کو وقتی اعتبار سے ملک کی توانائی ضروریات میں سہارا دینے کے ساتھ ساتھ درآمدی انحصار کم کرنے کی گنجائش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اسی تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ 2024-25 کے مالی سال میں تیل پاکستان کی سب سے بڑی درآمدی شے بنی رہی — تیل کی سالانہ درآمدات 2025 کے اختتام تک تقریباً 11.3 بلین ڈالر تک رپورٹ کی گئیں، جو کل درآمدی بل کا قریباً 20 فیصد بنتا ہے۔ اس قسم کی دریافتیں اگر موثر طور پر پالیسیاں ترتیب دے کر بروئے کار لائی جائیں تو توانائی کے بل میں کمی اور توانائی سیکٹر میں خودانحصاری کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔

3.⁠ ⁠مواقع — مفید مگر پیچیدہ حقیقی معاشی اثرات کا تجزیہ

خیال کرنا آسان ہے کہ معدنی دولت کا مطلب فوراً خوشحالی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس زیادہ پیچیدہ ہے۔ کان کنی سے حاصل ہونے والے مالی فوائد کا حقیقی اجتماعی فائدہ تبھی یقینی ہوسکتا ہے جب:
صاف قوانین اور شفاف ریونیو شیئرنگ ہوں (وفاق، صوبے، اور مقامی سطح پر مؤثر تقسیم)،

ماحولیاتی اور سماجی حفاظتی میکانزم ہوں تاکہ مقامی آبادیوں کا حق اور ماحول محفوظ رہے،

داخلہ صنعتوں کی ترقی کو فروغ دیا جائے تاکہ خام مال کی برآمد کے بجائے مقامی ویلیو-ایڈڈ مصنوعات بنیں،

قومی اور علاقائی سلامتی کو یقینی بنایا جائے تاکہ سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر حملوں یا بدامنی سے محفوظ رہے۔

Reko Diq جیسے منصوبوں پر بین الاقوامی فنانسنگ کے معاملات اور ممکنہ آرٹیفیکٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بڑے منصوبے بین الاقوامی بینکنگ اداروں اور ونڈر پارٹنرز کے ساتھ آئیں تو وہ معیشت کے لیے طویل المدتی ریٹرن دے سکتے ہیں — مگر ساتھ میں سیاسی استحکام، مقامی شمولیت اور شفافیت ناگزیر ہے۔

4.⁠ ⁠درپیش خطرات: بیرونی سازشیں، لبرل ایجنڈے کے خدشات اور اندرونی دیمک۔

1.⁠ ⁠بیرونی پروپیگنڈہ اور پاکستان کی ساکھ کے مسائل: عالمی پلیٹ فارمز پر انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات بعض اوقات پاکستان کی ساکھ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ دوسری طرف، داخلی سطح پر بعض واقعات کو جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانا بھی ممکن ہے۔ لہٰذا شواہد کی بنیاد پر ہر الزام کی چھان بین اور شفاف عدالتی عمل انتہأئ اہمیت رکھتا ہے۔ (اس ضمن میں بین الاقوامی ڈپلومیٹک روابط اور فورمز کارگر ثابت ہو سکتے ہیں)۔

2.⁠ ⁠سماجی قدروں اور خاندانی نظام کا تحفظ: مغربی لبرل اقدار کے بڑھتے اثرات کو بعض حلقے اپنے روایتی سماجی ڈھانچے کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس خطرے کا حل جبر یا عدم برداشت میں نہیں بلکہ تعلیم، عوامی بیداری اور اسلامی سماجی اصولوں کے اندر بنیادی حقوق کی ضمانت سے نکلتا ہے۔ ریاستی پالیسیز کو معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہیے، نہ کہ فرقہ وارانہ تشنج کو ہوا دینا۔

3.⁠ ⁠اندرونی کرپشن اور مافیاز (لینڈ مافیا، شوگر مافیا وغیرہ): اقتصادی مواقع کا حقیقی فائدہ تبھی عوام تک پہنچتا ہے جب وسائل کی چوری اور سرکاری خرد برد روکی جائے۔ کرپشن سرکاری منصوبوں کی کارکردگی کم کرتی ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد کمزور کرتی ہے۔ اسی لیے سخت احتساب اور شفاف پالیسیز ناگزیر ہیں۔ اس میں قانونی اصلاحات، آزاد عدالتی نگرانی اور ڈیجیٹل ٹرانسپیرنسی کے ذریعے بہتری لائی جا سکتی ہے۔
بلوچستان جیسے خطوں میں معدنی وسائل کے اطراف

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.