جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر زمین پر اپنا نائب مقرر کیا، تو اس کے ساتھ ہی اسے مسلسل درپیش کٹھن امتحانوں میں بھی ڈال دیا۔ زمین پر بقاء اور تعمیر کا سفر درحقیقت ایک مسلسل جدوجہد، بحرانوں کے انتظامات، اور مصائب سے نبردآزما ہونے کی کہانی ہے۔ چونکہ اللہ نے انسان کو زمین کا مینیجر بنایا ہے، اس لیے انسان نے کامیابی کی یہ داستان اپنے حوصلے، بصیرت، اور عزم سے لکھی ہے۔
اسی آزمائشی سفر میں انسان نے پتھریلے غاروں، جنگلوں، ندی نالوں، زہریلے حشرات اور خوف ناک درندوں کے درمیان رہ کر زندگی گزارنے کا ہنر سیکھا۔ وہ مشکلات سے گھبرا کر نہیں بلکہ ان سے سیکھ کر آگے بڑھا۔ یہی اس کی عظمت کی دلیل ہے۔ کرۂ ارض مصائب و آلام سے بھری ایک پرخار بستی ہے، جہاں انسان کو ہر روز مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور ان کے حل کی ذمہ داری بھی اسی کو کرنی ہے۔ وہ خوف سے نبردآزما ہوا، مشکلوں کا سینہ چیرتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ زمین کو جنت بنانے کی خواہش کو پورا کرتے کرتے وہ بستیوں، گاؤں، شہروں اور بالآخر ملکوں کا معمار بنا۔
اسی جستجو میں برصغیر کے مسلمانوں نے بھی جب اپنے دین، تہذیب، اور تشخص کو خطرے میں پایا تو انہوں نے ایک الگ وطن کا خواب دیکھا۔ علامہ اقبال کے تصور نے اس خواب کو معنی دیے، اور قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اسے ایک تحریک کی صورت دی گئی۔ “پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ” محض نعرہ نہیں، ایک عہد تھا، ایک نظریہ، ایک نظریاتی جنگ تھا۔
یہ آزادی تحفے میں نہیں ملی۔ یہ سرزمین کسی عطیے یا کسی ٹیبل ڈیل سے وجود میں نہیں آئی۔ یہ تو قربانیوں کی اس سرخ زمین پر پھوٹا ایک شجر ہے، جس میں ماؤں کے جگر گوشے دفن ہیں، جسے آنکھوں کے آنسوؤں، عصمتوں کی پامالی، اور لہو کی ندیوں سے سینچا گیا ہے۔ یہ وہ بستی ہے جو آگ اور خون کے دریاؤں کو عبور کر کے بسائی گئی۔ جہاں لاکھوں مسلمان صرف جائیدادیں ہی نہیں، بلکہ اپنی ماؤں کی گودیں، بیٹیوں کے دوپٹے، اور بیٹوں کی گردنیں چھوڑ کر نکلے تھے۔
یہ کوئی عام ہجرت نہ تھی، یہ سفر مقتل کی طرف سے ہو کر جاتا راستہ تھا۔
جب قافلے چلے، تو منزل آزادی تھی، مگر راستہ نوچتے ہوئے درندوں سے بھرا تھا۔ وہ درندے، جن کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں تھیں، جن کی آنکھوں میں وحشت تھی، جن کے سینے میں حیوانیت اور بس حیوانیت بھری تھی۔ وہ ہندو اور سکھ جتھے جنہوں نے دریا کو خون، اور راستوں کو لاشوں سے بھر دیا تھا۔
نرم و نازک جوان سالہ بچیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا، ماؤں کے سامنے ان کے لعلوں کو نیزوں پر اچھالا گیا، دلہن کے عروسی لباس خون رنگ ہو گئے، اور شیر خوار بچوں کو لہو لہو کیا گیا۔ ریلوے اسٹیشن، نہر کے کنارے، درختوں کی چھاؤں ہر جگہ خون، ہر طرف موت، ہر چہرہ سوال بن گیا۔
مگر اس اندھی ظلم و بربریت اور قتل غارت گری کا جواب دینے کوئی نہ آیا۔ نہ کوئی حکومت، نہ کوئی وائسرائے، نہ کوئی قانون۔ جیسے انسانیت بھی اس ہجرت سے منہ موڑ چکی تھی۔
پھر بھی، یہ وہ لوگ تھے جو کلمے کے نام پر نکلے تھے۔ جن کے ہاتھ میں نہ بندوق تھی، نہ ڈنڈا، صرف انسانیت سے محبت اور “لا الٰہ الا اللہ” کی لو تھی۔ یہ ہجرت نہیں تھی، یہ جہادِ اصغر تھا۔ یہ وہ چراغ تھے جو خون جلا کر روشن کیے گئے۔ یہ وہ اذانیں تھیں جو گرتے لاشوں کے سائے میں بھی بلند ہوئیں۔
اور آج، اگر کوئی اس آزادی کو معمولی سمجھے، تو اسے یاد دلاؤں کہ وہ ان ماؤں کے آنسو بھول گیا ہے! اس نے ان بیٹیوں کی چیخیں نہیں سنی، اور وہ ان شہیدوں کا خون فراموش کر بیٹھا ہے جنہوں نے پاکستان کی بنیادوں کو اپنے لہو سے سینچا تھا؟
لیکن آفرین ہے کہ کلمے کی بنیاد پر حاصل ہونے والی ریاست کے لیے ان کی استقامت میں لغزش نہ آئی۔
14 اگست 1947 اسی جدوجہد کا صلہ تھا۔
لہذا یہ دن محض ایک تاریخ نہیں، ایک داستان ہے! آزادی کی، قربانی کی، اور ایک نظریے کی جس کے لیے لاکھوں جانیں قربان ہوئیں۔ پاکستان صرف جغرافیائی نہیں، نظریاتی مملکت ہے، ایک ایسی ریاست جہاں مسلمان اپنی مذہبی، تہذیبی، اور روحانی شناخت کے ساتھ آزادی سے زندہ رہ سکیں۔
مگر افسوس آج اٹھہتر سال گذرنے کے بعد بھی یہ سوال ہمارے سامنے سر اٹھائے پوچھ رہا ہے
کہ کیا ہم اس آزادی کے اہل ہیں؟
کیا ہم نے اُس وعدے کو نبھایا جو ہمارے آباؤ اجداد نے خون سے لکھا تھا؟
کیا ہمارے قائدین نے اُس نظریے کی حفاظت کی جس پر پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی؟
کیا ہم نے ان لاکھوں جانوں کی قربانی کا فرض چکا دیا ہے یا ہم نے اپنے غیر ذمہ دارانہ قول و فعل سے اسے خاک میں ملا دیا ہے؟
بدقسمتی سے، پاکستان کو زیادہ نقصان دشمنوں سے نہیں، بلکہ اپنوں کی کوتاہیوں، مفاد پرستی اور نااہلی سے ہوا ہے۔
قائداعظم کا ویژن انصاف، قانون کی حکمرانی، اقلیتوں کے تحفظ اور ریاستی امانت داری پر تھا۔ ایک ایسی ریاست جس میں شہریوں کو مکمل آزادی اعمال و اظہار رائے حاصل ہو۔ اسلام کے نام پر بننے والی مملکت کو انسانیت کے جذبوں اور اسلامی روایات سے بنے ہوئے معاشرے کی نمائندہ ایک مکمل آزاد ریاست بنانا تھا۔ جنگلات کے خطے، زمین کو مہکتا گلستان بنانا تھا۔ خلاؤں، فضاوں اور افلاک کو مسخر کرنا تھا۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے اس ویژن کو ذاتی مفادات، اقربا پروری، کرپشن، اور اقتدار کی ہوس میں دفن کر دیا۔
کرپشن کے طفیل قومی ادارے حد درجہ کمزور ہوئے، نظامِ تعلیم نظریے سے خالی ہو گیا، انصاف جسے ہوتا نظر آنا تھا وہ بکنے لگا بلکہ سر عام بکتا ہوا نظر آنے لگا، بازاروں سے لے کر ایوانوں تک بکنے لگا۔ پھر ارباب اختیار کی سوچ بدلی، اس میں “پاکستان” کی جگہ “میں” (ذات) نے لے لی۔ نتیجتاً “میں” آگے اور ملک, پورے خطے میں پیچھے رہ